کتاب: دعوۃ الی اللہ اور داعی کے اوصاف - صفحہ 91
اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ ’’کہ وہ کسی فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔‘‘یعنی اُن کے دلوں میں کفر یا نفاق یا بدعت جاگزیں نہ ہوجائے۔اَوْیُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ’’یا وہ کسی المناک عذاب کا شکار نہ ہوجائیں ۔‘‘دنیا میں یہ عذاب قتل،حدوتعزیزیا جیل وغیرہ کی شکل میں ہوگا،جیساکہ امام احمد بن حنبل ؒ عبدالرزاق سے، وہ معمر سے، وہ ہمام بن منبِّہ سے اور وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَثَلِیْ وَمَثَلُکُمْ کَمَثَلِ رَجُلِ اِسْتَوْقَدَنَاراًفَلَمَّا اَضَائَ تْ مَاحَوْلَھَا جَعَلَ الْفِرَاشُ وَھٰذِہٖ الدَّوَابُّ اللاَّتِیْ یَقَعْنَ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا وَجَعَلَ یَحْجِزُھُنَّ وَیَغْلِبْنَہٗ فِیْھَا:قَالَ صلی اللّٰه علیہ وسلم : فَذَالِکَ مَثَلِیْ وَمَثَلُکُمْ اَنَاآخِذٌ بِحُجَذِکُمْ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُوْنَنِیْ وَتَقْتَحِمُوْنَ فِیْھَا)) [1] ’’میری اور تمہاری مثال اُس آدمی کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور اسکا گرد وپیش روشن ہوگیا تو یہ پروانے،یہ کیڑے مکوڑے اور پتنگے جو عموماً آگ میں گرتے ہیں ،وہ آکر آگ میں گرنے لگے۔وہ انھیں بچانے اور آگ سے دور رکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے،مگر وہ اس پر غالب آجاتے اور آگ میں جاگرتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری اور تمہاری مثال بھی ایسی ہی ہے۔میں تمہیں آگ سے روکتا ہوں کہ اس سے ہٹ جاؤ،مگر تم مجھ پر غالب آجاتے اور آگ میں جاگرتے ہو۔‘‘ (۱۴) امام سیوطی ؒ نے اپنے رسالہ’’مفتاح الجنّۃ فی الاحتجاج بالسّنّۃ‘‘ میں کہا ہے: ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے! یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جس شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
[1] بخاری،مختصر مسلم:۱۵۴۴ ،ترمذی۔صحیح الجامع ۲/۱۰۲۰