کتاب: دعوۃ الی اللہ اور داعی کے اوصاف - صفحہ 90
(۱۳) حافظ ابن کثیر ؒ نے اس ارشاد ِ الٰہی: {فَلْیَحْذَرِالَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْیُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo} (سورۃ النّور:۶۳) ’’ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ نہ گھیرلے یا وہ دردناک عذاب میں نہ مبتلا ہوجائیں ۔‘‘ حافظ ابن کثیر ؒ نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: عَنْ اَمْرِہٖ یعنی رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے، اور یہاں حکم سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ،منہج،طریقہ،سنّت اور شریعت ہے۔پس تمام اقوال واعمال کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واعمال سے موازنہ کیا جائے۔جو اُن کے موافق ہووہ قابلِ قبول اور جو ان کے مخالف ہو وہ اسُی کے قائل وفاعل پر ردّ کردیا جائیگا، وہ چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو ،کیونکہ بخاری ومسلم وغیرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَھُوَرَدٌّ)) ’’جس نے کوئی ایساکام کیا ،جسکا ہم نے حکم نہیں دیا، وہ نامقبول ہے۔‘‘[1] اس مذکورہ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ شریعتِ محمدی ’’علٰی صاحبہاالصّلوٰۃ والسّلام‘‘ کی ظاہری وباطنی ہر طرح کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے۔
[1] مختصر مسلم:۱۲۳۷،ابوداؤد،دارقطنی اور مسنداحمد(۶/۷۳)۔صحیح الجامع ۲/۱۰۹۳ غایۃ المرام للالبانی:۵ اِسی مفہوم کی ایک دوسری حدیث میں ارشادِ نبوی ﷺ ہے: ((مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِ نَا ھَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدُّ))(بخاری ،مسلم،ابوداؤد،ابن ماجہ،دارقطنی،بیہقی،طیالسی ،مسند احمد۔صحیح الجامع ۲/۱۰۹۳،غایۃ المرام تخریج الحلال والحرام للالبانی :۵) ’’جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز پیدا کی جسکا ہم نے حکم نہیں دیا ،وہ مردود وناقبول ہے۔‘‘