کتاب: دعوۃ الی اللہ اور داعی کے اوصاف - صفحہ 88
(عَجِبْتُ لِقَوْمٍ عَرَفُواالْاَسْنَادَ وَصِحَّتَہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَذْھَبُوْنَ اِلیٰ رَأْیِ سُفْیَانَ وَاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ یَقُوْلُ:) {فَلْیَحْذَرِالَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْیُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ} (سورۃ النّور:۶۳) ’’مجھے اُس قوم(ان لوگوں ) پر تعجب ہے جو اسناد اور اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک صحت معلوم کرلینے کے بعد سفیان ثوریؒ کی رائے کو اختیار کرتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اُن لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے ڈرنا چاہیے کہ ایسے میں کسی فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں یادردناک عذاب کا شکارنہ ہوجائیں ۔‘‘ پھرا مام صاحب نے فرمایا: ’’ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس آیت میں فِتْنَۃٌ سے کیا مراد ہے؟فِتْنَۃ ٌسے مراد شِرک ہے۔جب کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد کو ردّ کرتا ہے تو کیا بعید کہ اس کے دل میں کچھ کجی پیدا ہوجائے جس کے باعث وہ ہلاک ہوجائے۔‘‘ (۱۰) امام بیہقی ؒنے جلیل القدر تابعی حضرت مجاہد بن جبیر ؒ سے نقل کیا ہے،انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: { فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیءٍ فَرُدُّوْہُ اِلٰی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ} (سورۃ النسآء:۵۹) ’’اگر تم کسی معاملہ میں باہمی تنازعہ میں مبتلا ہوجاؤ تو اسے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف لوٹادو۔‘‘