کتاب: دعوۃ الی اللہ اور داعی کے اوصاف - صفحہ 54
کوپوری واقفیّت وعلم نہ ہو۔چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
{قُلْْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْاِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ } (سورۃ یوسف:۱۰۸)
’’کہہ دیجیے کہ میری راہ یہ ہے۔میں علیٰ وجہِ البصیرت اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔‘‘
گویا علم و بصیرت کے سوا کوئی چارہ نہیں اور حصول ِ علم ایک فریضہ ہے۔ [1] ناواقفیت ولا علمی کی صورت میں دعوت دینے سے احتراز کریں ، اور اس بات سے بھی قطعی گریزاں رہیں کہ آپ کو ئی ایسا موضوع چھیڑ بیٹھیں جس کے متعلق خود آپ کو وافر معلومات حاصل نہیں ۔کیونکہ ناواقف بگاڑتا تو ہے، سنوارتا کچھ بھی نہیں ۔فساد بپا کرتا ہے، اصلاح نہیں کرپاتا۔
اے اللہ کے بندے! آپ اللہ سے ڈرتے رہیں اور اس بات سے بھی بچیں کہ آپ علم کے بغیر اللہ پرکوئی بات تھوپ دیں ۔آپ کسی چیز کی طرف اُس وقت تک دعوت نہ دیں جب تک اُس کے متعلق اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا پوری طرح علم اور بصیرت واگاہی نہ حاصل کرلیں ۔بصیرت کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں ۔ اور یہ ہرعالِم، ہر طالبِ علم اور ہرمبلّغ وداعی الیٰ اللہ کی ذمہ داری ہے کہ جس کام کی طرف دعوت دے اُس کے متعلق پہلے خود علم
[1] اس سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ کی بکثرت احادیث موجود ہیں جن میں حصولِ علم اور اہلِ علم حضرات کی فضیلت بیان کی گئی ۔حصولِ علم کی فرضیت کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
((طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ))
(ابن ماجہ،معجم طبرانی کبیر،اوسط،صغیر،شعب الایمان بیہقی۔صحیح الجامع ۲/۷۲۷،صحیح الترغیب والترھیب ۱/۱۴۰)
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔‘‘ (مترجم)