کتاب: دعوۃ الی اللہ اور داعی کے اوصاف - صفحہ 43
’’بے شک تمہارے خون،اموال اور عزّتیں تم پر اُسی طرح حرام ہیں جس طرح کہ اِس شہر اور اِس ماہ میں آج کے دن کی حُرمت ہے۔‘‘ اور ارشادِ رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے: ((لَاَنْ یَّاْ خُذَاَحَدُکُمْ حَبْلَہٗ فَیَأْتِیْ بِحَذْمَۃٍ مِنْ حَطَبٍ عَلٰی ظَھْرِہٖ فَیَبِیْعُھَا فَیَکُفُّ بِھَا وَجْھَہٗ مِنْ سُؤَالِ النَّاسِ اَعْطَوْہُ اَوْمَنَعُوْہٗ))[1] ’’تم میں سے ایک شخص اپنی رسی پکڑے اور اپنی پیٹھ پر لادکرلکڑیوں کا گٹھا لائے،پھر اسے بیچ کر پیٹ پالے اور اپنے چہرے کو لوگوں سے سوال(کی ذلّت) کرنے سے بچائے(یہی بہتر ہے کیونکہ لوگوں کا کیا ہے)اسے کچھ دیں یا نہ دیں ۔‘‘ اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا’’ایُّ الْکَسْبِ اَطْیَبُ؟‘‘ پاکیزہ کمائی کونسی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہٖ وَکُلُّ بَیْعٍ مَبْرُوْرٍ)) [2] ’’آدمی کی ہاتھ کی کمائی اور دھوکہ وفریب سے پاک تجارت ‘‘ اور رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا اَکَلَ اَحَدٌ طَعَامًا اَفْضَلُ مِنْ اَنْ یَّا کُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہٖ وَکَانَ
[1] بخاری،مسنداحمد،ابن ماجہ عن النربیربن العوام ص(ومثلہٗ في)بخاری، مسلم،نسائی عن ابی ھریرہ ص ،صحیح الجامع:۲/۸۹۹ [2] معجم طبرانی کبیر واوسط عن ابن عمررضی اللّٰہ عنہما ومسند بزار،معجم طبرانی اوسط عن رافع بن خَدِیج ص ،صحیح الترغیب والترھیب للالبانی:۲/۳۰۵،۳۰۶