کتاب: دعوۃ الی اللہ اور داعی کے اوصاف - صفحہ 16
{قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّھُمْ لاَیُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِآیٰاتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَo} (سورۃ الانعام:۳۳)
’’ہم جانتے ہیں کہ ان کی باتیں آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )کو غمگین کرتی ہیں ، وہ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نہیں جھٹلاتے بلکہ وہ ظالم تو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘
یہاں اللہ پاک نے واضح فرمادیا ہے کہ وہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب نہیں کرتے تھے،بلکہ درباطن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت وصفائی کے معترف اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ودیانت سے واقف تھے، یہاں تک کہ نزولِ وحی سے قبل وہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’امین‘‘ کے نام سے پکاراکرتے تھے۔مگر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسد وبغاوت کی بناء پر حق کا انکار کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو خورِ اعتناء نہ سمجھا بلکہ پورے حوصلہ واستقامت کے ساتھ رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر اپنے مشن میں لگے رہے،لوگوں کو اللہ جلّ وعلا کی طرف مسلسل بلاتے رہے ،اور اُن کی اذیّتوں پر صبر وہمت سے کام لیا۔دعوت کے لیے پیہم کوشاں رہے، ایذاؤں سے بچتے،برداشت کرتے اورحسب الامکان ایذاء رساں دشمنوں کو معاف کرتے رہے ۔یہاں تک کہ معاملہ انتہائی شدّت اختیار کرگیا،اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ۔تب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دے دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منوّرہ تشریف لے گئے،یوں مدینہ منوّرہ اسلام کا پہلا ’’دارالخلافہ‘‘بن گیا۔ وہاں اللہ کے دین کو غلبہ حاصل ہوا اور مسلمانوں کی حکومت وقوّت وجود میں آگئی۔
نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعوت کو مسلسل جاری رکھا اور حق کی وضاحت کرتے رہے، اور جہاد بالسیف بھی شروع کردیا۔مختلف روساء قبائل اور سرداروں کی طرف قاصد بھیجے جو