کتاب: دعوۃ الی اللہ اور داعی کے اوصاف - صفحہ 15
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا جیساکہ پہلے رسولوں نے پہنچایاتھا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ ستائے اور ایذائیں پہنچائے گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ صبر وہمت کا مظاہرہ کیا اوربارِرسالت کو پہلے تمام رسولوں کی نسبت زیادہ حسن وخوبی سے اٹھایا۔عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمُ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تئیس(۲۳) سال پیغمبرانہ زندگی گزاری جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیغام ِالٰہی کو لوگوں تک پہنچاتے، لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے اور بلاتے رہے اور احکامِ الٰہی کی نشر واشاعت میں لگے رہے۔اس تئیس(۲۳) سالہ عہدِرسالت کے ابتدائی(۱۳) سال تو ام القریٰ۔مکہ مکرّمہ۔ میں دعوت الیٰ اللہ کا فریضہ سرانجام دیا جو پہلے تو خفیہ طور پر ہوتا ،پھر کھلم کھلا اور ببانگ دہل اعلان ِحق فرمانے لگے۔تب اذیّتیں پہنچائے گئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی ایذاؤں پر صبر کیا اور میدانِ دعوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے ثبات میں سرِمُو لرزش نہ آئی۔
وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق کلامی اور امانت داری کے معترف اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی فضیلت،عالی حسب ونسب اور خاندانی مقام ومنزلت کے واقف اور قائل تھے۔مگر سردارانِ قبائل کو سرداری وسربراہی کی ہوّس،آتش حسد اور بغض وعناد لے ڈوبے۔ اور عوام النّاس کی طرف سے ایذاء رسانی کا سبب ان کی جہالت وضلالت اوراپنے سرداروں کی تقلید تھی۔اکابرنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا انکار اپنی سرداری پر فخروتکبّر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد کی بنا ء پر کیا ۔اور عوام نے اُن کی تقلید وپیروی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی وبُرائی پر اُتر آئے،یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت تکلیفیں اور شدید اذیّتیں پہنچائے گئے۔
اکابرین سرداروں نے حق کو پہچان تو لیا، مگر عناد کی وجہ سے اطاعت نہ کی۔اِس حقیقت پر یہ ارشادِ الٰہی دال ہے: