کتاب: دعوۃ الی اللہ اور داعی کے اوصاف - صفحہ 13
نازل فرمائیں تاکہ لوگوں کے درمیان حق وانصاف کے ساتھ فیصلے کریں اور ان کے ہاں توحیدِ باری تعالیٰ، شریعت ِالہیہ اور عقائد میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں ان کی وضاحت کریں ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{ کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً }
’’لوگ ایک امت تھے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب حق پر تھے اور ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے عہدِ حیات سے لے کر آدمِ ثانی حضرت نوح علیہ السلام تک ان میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہ تھا ،بلکہ وہ سب راہِ ہدایت پر تھے،جیساکہ ترجمان القران حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور سلف وخلف کی ایک جماعت کا قول ہے۔پھر قومِ نوح علیہ السلام میں شرک واقع ہوا ،وہ باہمی اختلافات کا شکار ہوگئے اور ان پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق واجب تھے اُن کے متعلق بھی ان میں اختلافات پیدا ہوگئے ۔جب ان میں شرک اور اختلافات نے راہ پالی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو رسول بناکر بھیجا اور ان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔جیساکہ ارشادِ رب العزّت ہے:
{اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا اِلیٰ نُوْحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنْ م بَعْدِہٖ} (سورۃ النسآء:۱۶۳)
’’ہم نے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف وحی کی جیسا کہ نوح( علیہ السلام )اوراُن کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف وحی کی تھی۔‘‘
اور ارشادِ ربّانی ہے:
{وَمَا اَنْزَلْنَااِلَیْکَ الْکِتَابَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَھُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَرَحْمَۃً لِّقَوْمِ یُّؤْمِنُوْنَo} (سورۃ النحل:۶۴)
’’ہم نے نہیں اتاری آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف یہ کتاب، سوائے اس لیے