کتاب: دعوۃ الی اللہ اور داعی کے اوصاف - صفحہ 10
اور فرمانِ الٰہی ہے: {اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَھُنَّ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَھُنَّ لِتَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ وَاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیءٍعِلْماًo} (سورۃ الطلاق:۱۲) ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے سات آسمانوں کو اور زمین سے بھی مانندان کی اترتا ہے حکم اُس کا درمیان ان کے تاکہ تم جان لوکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔‘‘ ان آیات میں اللہ پاک نے واضح فرمادیا ہے کہ اُس نے مخلوقات کو اِس لیے پیدا فرمایا تاکہ اُس کی عبادت وتعظیم کی جائے، اور اُس کے اوامرونواہی کی اطاعت ہو ،کیونکہ عبادت دراصل اُس ذاتِ باری تعالیٰ کی توحید واطاعت اور اُس کے اوامر ونواہی کی تعظیم ہی کا دوسرا نام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اُس نے ارض وسماء اور اُنکی پہنائیوں کی تمام مخلوقات کو اِس لیے تخلیق فرمایا ہے تاکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے کہ وہ ہر چیز پر قادرِ مطلق ہے۔اور اُس کا علم ہر شیٔ پر محیط ہے۔اِس سے معلوم ہوا کہ مخلوقات کی تخلیق وایجا دکی ایک حکمت تویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ گرامی اسماء صفات کے ساتھ پہچانی جائے، اور یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ جلّ وعلا ہر چیز کو جاننے والاہے۔اور اِن مخلوقات کی ایجاد کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ اُس کی عبادت کریں ۔اُس کی تقدیم وتقدیس بیان کریں اور اُس کی عظمت وبزرگی کے سامنے فروتنی وانکساری اورعاجزی اختیار کریں ، جب کہ عبادت نام ہی اللہ جلّ شانہٗ کے سامنے خشوع وخضوع اور عاجزی وخاکساری اپنانے کا ہے، اور جن احکام واوامر کو بجالانے اور جن ممنوعات ونواہی کو ترک کرنے پر مبنی وظائف واعمال کا اللہ تعالیٰ نے جنّ وبشر کو حکم فرمایا ہے، اُن کا نام عبادت صرف اِس لیے ہی تو رکھا گیاہے کہ وہ اللہ عزّوجلّ کے سامنے خشوع وخضوع اور عاجزی وانکساری کے ساتھ بجالائے جاتے ہیں ۔