کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 98
﴿قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رَاَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّۃً وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا قَالَ اِنَّہٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَاریْرَ قَالَتْ رَبِّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ للّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾[1] ’’محل کے اندر داخل ہو جاؤ۔‘‘ تو جب اُس نے اُسے دیکھا،تو اُسے گہرا پانی سمجھا اور اپنی دونوں پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا۔ انہوں نے کہا: ’’بے شک وہ تو شیشے کا صاف ملائم بنایا ہوا فرش ہے۔‘‘ کہنے لگی: ’’(اے)میرے رب! بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان-علیہ السلام-کے ساتھ اللہ رب العالمین کے لیے فرمان بردار ہو گئی۔‘‘] اس واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبأ کے علاقے پر حملہ کرنے سے پیشتر اُسے دعوتِ اسلام دی۔دعوت کو موثر بنانے کی خاطر توفیقِ الٰہی سے صورتِ حال کے مطابق ممکنہ تدابیر اختیار کیں۔ربِّ کریم نے ان کی دعوت کو ثمر آور بنایا اور ملکہ نے اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کر دیا۔ دیگر فوائد: ۱۔ کسی کے عقیدہ و عمل کے غلط ہونے کی خبر کو تحقیق کے بغیر قبول نہ کرنا ۲۔ دعوت کے لیے [مکتوب] کو بطورِ [وسیلہ] استعمال کرنا ۳۔ دعوت میں قاصد کی خدمات سے استفادہ کرنا ۴۔ اسلامی ریاست کی جانب سے غیر اسلامی ریاست کو دعوتِ اسلام دینا
[1] سورۃ النمل/ الآیۃ ۴۵۔