کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 74
تَقُولُونَ۔‘‘[1] اُن کے کنبے میں سے کچھ لوگ چیخے،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [’’اپنے لیے اچھی ہی دعا کرو،کیونکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں‘‘]۔ اس حدیث شریف میں یہ بات واضح ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت دعوت و تربیت کو نہ چھوڑا،بلکہ حسبِ ضرورت اس فریضہ کو بہترین طریقے سے سرانجام دیا۔فَصَلَوَاتُ رَبِّيْ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْہِ۔ سات دیگر فوائد: ۱۔ داعی کا لوگوں سے رابطہ میں ہونا۔بیماری میں عیادت اور غم میں شرکت کرنا ۲۔ رونما ہونے والی صورتِ حال کے سبب کا بیان: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی،کہ روح کے قبض کیے جانے کے بعد آنکھیں اس کا تعاقب کرتے ہوئے کھلی رہ جاتی ہیں۔ ۳۔ رونما ہونے والی صورت حال کے موقع پر کرنے کا کام: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا،کہ آنکھوں کو بند کیا جائے۔ ۴۔ کرنے والے کام کو عمل سے بتلانا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے میت کی آنکھوں کو بند کر کے اپنے عمل(Action)سے دل و دماغ پر نقش ہونے والا طریقہ اختیار فرمایا۔ ۵۔ غم و اندوہ کے وقت ممنوعہ کام سے روکنا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میت پر چیخنے چلانے سے منع فرمایا۔میت کے گھر والوں کا دکھ اور غم ان پر احتساب کی راہ میں رکاوٹ نہ بنایا۔
[1] صحیح مسلم،کتاب الجنآئز،باب في إغماض المیت و الدعاء لہ إذا حضر،جزء من رقم الحدیث ۷(۹۲۰)،۲/۶۳۴۔