کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 71
کرتے اور اس سلسلے میں تاحدِ استطاعت جدوجہد کرتے ہوئے اُن کے ہاں داخل ہوئے،لیکن تقدیر کی ایسی رکاوٹیں حائل ہو گئیں،جن کے مقابلے میں نہ کوئی آرزو کام آتی ہے اورنہ ہی کسی قسم کی قدرت و طاقت]۔ شرحِ حدیث میں علامہ رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں: ’’وَ(أَشْہَدْ)مَجْزُوْمٌ عَلٰی جَوَابِ الْأَمْرِ،أَيْ:إِنْ تَقُلْ أَشْہَدُ،وَ کُلُّ ذٰلِکَ تَرْغِیْبٌ وَ تَذْکِیْرٌ لِأَبِيْ طَالِبٍ،وَ حِرْصٌ عَلٰی نَجَاتِہٖ،وَ یَأْبَی اللّٰہُ إِلَّا مَا یُرِیْدُ۔‘‘[1] ’’[أَشْہَدْ](صیغہ)امر کا جواب ہونے کی بنا پر مجزوم(یعنی اُس کے آخری حرف پر سکون ہے)۔مراد یہ ہے،کہ اگر آپ(مطلوبہ کلمہ)کہیں گے،تو میں گواہی دوں گا اور یہ سب کچھ ابوطالب کے لیے ترغیب،یاددہانی اور اُن کی نجات کے لیے شدید آرزو ہے۔(لیکن)اللہ تعالیٰ انکار کرتے ہیں،مگر جس کا وہ(خود)ارادہ فرمائیں‘‘]۔ مزید برآں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کو یہ دعوت صرف ایک مرتبہ دینے پر اکتفا نہیں کیا،بلکہ اُن کے آخری الفاظ بولنے تک اس دعوت کے دینے کو جاری رکھا۔ علامہ قرطبی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’وَ یَعْنِيْ ذٰلِکَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى اللّٰه عليه وسلم أَقْبَلَ عَلٰی أَبِيْ طَالِبٍ یَعْرِضُ عَلَیْہِ الشَّہَادَۃَ،وَ یُکَرِّرُہَا عَلَیْہِ۔‘‘[2] [’’اُس سے مقصود یہ ہے،کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطالب کی جانب متوجہ ہوئے۔اُن سے(اللہ تعالیٰ کی توحید کی)گواہی دینے کی فرمائش کرتے رہے اور بار بار ان سے یہی تقاضا کرتے رہے‘‘]۔
[1] المفہم ۱/۱۹۳۔ [2] المفہم ۱/۱۹۳۔