کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 70
[’’اللہ تعالیٰ کی قسم! یقینا میں ضرور آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا،جب تک کہ مجھے اس سے منع نہیں کیا جاتا‘‘]۔ پس(یعنی اس موقع پر)اللہ عزوجل نے(یہ آیت)نازل فرمائی: [ترجمہ:نبی(کریم صلی اللہ علیہ وسلم)اور اہل ایمان کے لیے کبھی جائز نہیں،کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں،خواہ وہ قرابت دار ہوں،اس کے بعد،کہ اُن کے لیے صاف ظاہر ہو گا،کہ یقینا وہ جہنمی ہیں]۔ اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا: [ترجمہ:بے شک آپ جسے پسند کریں،اسے ہدایت نہیں دے سکتے،بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جانتے ہیں]۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں: ’’وَ کَانَ أَبُوْ طَالِبٍ یَعْرِفُ صِدْقَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم فِيْ کُلِّ مَا یَقُوْلُہٗ،غَیْرَ أَنَّہٗ لَمْ یَدْخُلْ فِيْ الْإِسْلَامِ،وَ لَمْ یَزَلْ عَلٰی ذٰلِکَ إِلٰی أَنْ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ،فَدَخَلَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم طَامِعًا فِيْ إِسْلَامِہٖ،وَ حَرِیْصًا عَلَیْہِ،بَاذِلًا فِيْ ذٰلِکَ جُہْدَہٗ،مُسْتَفْرِغًا مَا عِنْدَہٗ،لٰکِنْ عَاقَتْ عَنْ ذٰلِکَ عَوَائِقُ الْأَقْدَارِ الَّتِيْ لَا یَنْفَعُ مَعَہَا حِرْصٌ وَ لَا اِقْتِدَارٌ۔[1] [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر بات میں راست گوئی کے متعلق ابوطالب آگاہ تھے،لیکن وہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے اور موت کے آنے تک اسی حالت میں رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے اسلام کی انتہائی آرزو لیے ہوئے،اُن کے لیے خیرخواہی
[1] المفہم ۱/۱۹۳ باختصار؛ نیز ملاحظہ ہو:إکمال إکمال المعلم ۱/۱۸۱؛ مکمل إکمال الإکمال ۱/۱۸۱۔