کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 69
وَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِي أَبِيْ طَالِبٍ،فَقَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم:﴿إِنَّکَ لَا تَہْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِيْ مَنْ یَّشَآئُ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ﴾[1]،[2]
[’’جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا،(تو)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس تشریف لائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو دیکھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب سے فرمایا:
’’اے میرے چچا! [لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ] کہو،ایک کلمہ،میں اللہ تعالیٰ کے حضور(روزِ قیامت)آپ کے لیے اس(کے پڑھنے)کی گواہی دوں گا۔‘‘
ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا:
’’اے ابوطالب! کیا تم عبدالمطلب کے دین سے بے رغبتی کرو گے؟‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اُن پر اسے پیش کرتے رہے اور پہلے والی بات اُن کے لیے دہراتے رہے،یہاں تک کہابوطالب نے اُن سے سب سے آخری بات کرتے ہوئے کہا:
’’وہ عبدالمطلب کے دن پر ہیں۔‘‘
اور انہوں نے [لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ] کہنے سے انکار کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(انکار سُن کر)فرمایا:
[1] سورۃ القصص/ الآیۃ ۵۶۔
[2] متفق علیہ:صحیح البخاري،کتاب الجنائز،باب إذا قال المشرک عند الموت:لا إلہ إلا اللہ،رقم الحدیث ۱۳۶۰،۳/۲۲۲؛ و صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب الدلیل علی صحۃ إسلام من حضرہ الموت،ما لم یشرع في النزع،و ہو الغرغرۃ،…،رقم الحدیث ۳۹(۲۴)،۱/۵۴؛ الفاظِ حدیث صحیح مسلم کے ہیں۔