کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 65
فِيْ غِمَارِہِمْ۔‘‘[1] [’’(ایمان لانے کے)حکم کی تاکید کے لیے(یہ بات فرمائی)اور وہ(یعنی اس فرمان میں)کافر لوگوں کے پیچھے چلنے اور اُن کے حلقے میں داخل ہونے کی ممانعت ہے۔‘‘] ہ:حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے،یہ سمجھتے ہوئے،کہ پہاڑ پر چڑھنا اُسے پانی کے عذاب سے بچا لے گا،باپ کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے سے انکار کر دیا۔جواب میں حضرت نوح علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا،کہ [پہاڑ پانی کے عذاب سے نہیں بچائے گا]،بلکہ یہ حقیقت واضح فرمائی،کہ اُس دن کوئی چیز بھی عذابِ الٰہی سے بچا نہ سکے گی۔قاضی ابو سعود لکھتے ہیں: [انہوں-علیہ السلام-نے فرمایا: [لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ] انہوں نے(اللہ تعالیٰ کے سوا)کسی کے بھی عذابِ الٰہی سے بچانے والا ہونے کی یکسر نفی کی،جیسے کہ کہا جاتا ہے:[لَیْسَ فِیْہِ دَاعٍ وَ لَا مُجِیْبٌ] [وہاں کوئی بھی بُلانے والا نہیں اور نہ ہی جواب دینے والا] مراد یہ ہے،کہ لوگوں میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں]۔[2] و:عذاب الٰہی سے کسی کے بھی بچانے کی نفی کرتے ہوئے،حضرت نوح علیہ السلام نے لفظ [الیوم] فرما کر اس دن کی سنگینی کی شدّت کو نمایاں اور اجاگر کیا۔قاضی ابو سعود تحریر کرتے ہیں: ’’وَ زَادَ [اَلْیَوْمَ] لِلتَّنْبِیْہِ إِلٰی أَنَّہٗ لَیْسَ کَسَآئِرِ الْأَیَّامِ الَّتِيْ فِیْہَا الْوَقَآئِعُ،وَ تُلِمُّ فِیْہَا الْمُلِمَّاتُ الْمُعْتَادَۃُ الَّتِيْ رُبَّمَا یَتَخَلَّصُ
[1] روح المعاني ۱۲/۵۹۔ [2] ملاحظہ ہو:تفسیر أبي السعود ۴/۲۱۰۔نیز ملاحظہ ہو:روح المعاني ۱۲/۶۰؛ و فتح القدیر ۲/۷۲۲۔