کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 63
احْتَاجَ إِلَی النِّدَآئِ الْمَذْکُوْرِ۔‘‘[1] [(وَ کَانَ فِيْ مَعْزِلٍ)یعنی ایسی جگہ میں،کہ جہاں اُس نے خود کو اپنے باپ،بھائیوں اور قوم سے اس قدر دُور کر رکھا تھا،کہ [تم سوار ہو جاؤ] کا خطاب اس تک نہ پہنچا اور اسے(بات)پہنچانے کی خاطر مذکورہ پکار کی ضرورت تھی‘‘]۔ ب:بیٹے کی بے رخی اور دُوری کے باوجود حضرت نوح علیہ السلام نے اسے [یَا بُنَيَّ] [اے میرے چھوٹے سے بیٹے] کے محبت اور پیار سے لبریز لقب سے پکارا۔اس مشفقانہ لقب کے ساتھ آواز دینا،سننے والے کانوں،سمجھنے والے دل اور عقل والی کھوپڑی کے لیے یہ پیغام دے رہا ہے،کہ اس دعوت کی اساس حضرت نوح علیہ السلام کی پدری شفقت تھی،جو کہ بیٹے کی بدتمیزی کے باوجود انہیں خیرخواہی کی غرض سے اسے دعوت دینے سے خاموش نہیں رہنے دیتی۔ شیخ ابن عاشور لکھتے ہیں: ’’(بُنَيَّ)’’اِبْنُ مُضَافًا إِلٰی یَآئِ الْمُتَکَلِّمِ،وَ تَصْغِیْرُہٗ ہُنَا تَصْغِیْرُ شَفَقَۃٍ بِحَیْثُ یَجْعَلُ کَالصَّغِیْرِ فِيْ کَوْنِہٖ مَحَلَّ الرَّحْمَۃِ وَ الشَّفَقَۃِ۔[2] [’’[ابن] یائے متکلم کی طرف مضاف ہے اور اسے اظہارِ شفقت کی خاطر تصغیر کی شکل میں لایا گیا،تاکہ اس کے محلِّ رحمت و شفقت ہونے میں چھوٹے بچے کی مانند ٹھہرایا جائے]۔
[1] تفسیر أبي السعود ۴/۲۱۰۔علامہ زمخشری نے لکھا ہے:(مَعْزِلٍ)عَزَلَ سے[مَفْعِل]کے وزن پر ہے۔مراد یہ ہے،کہ وہ ایسی جاگہ میں تھا،جہاں اُس نے خود کو اپنے باپ اور اہلِ ایمان کی سواری سے دور کر رکھا تھا۔(ملاحظہ ہو:الکشاف ۲/۲۷۰)۔نیز ملاحظہ ہو:تفسیر التحریر و التنویر ۱۲/۷۵؛ و تفسیر القاسمي ۹/۱۲۳۔ [2] تفسیر التحریر و التنویر ۱۲/۷۶۔نیز ملاحظہ ہو:روح المعاني ۱۲/۵۹۔اس میں ہے:’’اسم تصغیر کے ساتھ پکارنا ازراہِ شفقت و رحمت ہے۔‘‘