کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 60
’’جَآئَ یَسْرِقُ،فَسَرَقْتُہٗ۔‘‘[1]،[2]
’’چوری کرنے(کی غرض سے)آیا،تو میں نے اسے چرا لیا۔‘‘]
اللہ أکبر! امام مالک بن دینار دعوتِ خیر دینے کے لیے کس قدر تڑپ اور جذبہ رکھتے تھے! رات کی تاریکی میں چور کو دعوت دینے کا اللہ تعالیٰ نے موقع عطا فرمایا،تو اُس سے خوب فائدہ اٹھایا۔رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی رَحْمَۃً وَّاسِعَۃً۔
رب قدیر نے بھی اس وقت کی اُن کی دعوت میں حیران کن تأثیر پیدا فرمائی،کہ مخاطب کی زندگی میں انقلاب آ گیا۔
ربِّ کریم! ہمیں اور ہماری نسلوں کو یہی جذبہ عطا فرما دیں۔إِنَّہٗ سَمِیْعٌ مُّجِیْبٌ۔
[1] حافظ ذہبی اُن کے متعلق لکھتے ہیں:باعمل علماء میں سے چوٹی کے عالم،ثقہ تابعین شمار کیے جانے والے اور مصحف شریف کی کتابت کرنے والوں میں انتہائی بلند پایہ حضرات میں سے ایک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانے میں پیدا ہوئے اور ۱۲۷ ہجری میں فوت ہوئے۔(ملاحظہ ہو:سیر أعلام النبلآء ۵/۳۶۲-۳۶۴)۔
[2] المرجع السابق ۵/۳۶۳۔