کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 54
وَاتَّبَعْنَا‘‘۔ فَیُقَالُ لَہٗ: ’’نَمْ صَالِحًا،فَقَدْ عَلِمْنَا إِنْ کُنْتَ لَمُوْقِنًا‘‘۔ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ …أَوِ الْمُرْتَابُ…(لَا أَدْرِی أَیَّتُہُمَا قَالَتْ أَسْمَآئُ رضی اللّٰه عنہا)فَیَقُوْلُ: ’’لَا أَدْرِيْ سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَیْئًا فَقُلْتُہٗ‘‘۔[1] [’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(نماز سے)فارغ ہوئے،تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی،پھر ارشاد فرمایا: ’’ہر وہ چیز،جو کہ میں نے دیکھی ہوئی نہیں تھی،اس پر دیکھ لی ہے،یہاں تک کہ جنت اور دوزخ بھی۔البتہ تحقیق میری جانب وحی کی گئی ہے،کہ بلاشبہ تم قبر میں آزمائش میں ڈالے جاؤ گے،جو کہ فتنہ دجال جیسی یا اس کے قریب قریب ہو گی۔ [مجھے معلوم نہیں،[2] کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کیا کہا یعنی [جیسی] کہا یا [قریب قریب] کہا]۔ تم میں سے ایک لایا جائے گا،پھر اس سے کہا جائے گا: ’’اس آدمی کے متعلق تمہارا علم کیا ہے؟‘‘ پس مومن(…یا یقین رکھنے والا…(مجھے معلوم نہیں،3کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ بولا)کہے گا:’’اللہ تعالیٰ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم واضح دلائل اور ہدیات کے ساتھ تشریف لائے،تو ہم نے(اُن کی دعوت کو)قبول کیا،ایمان لائے اور اُن کی
[1] متفق علیہ:صحیح البخاري،کتاب الکسوف،باب صلاۃ النساء مع الرجال في الکسوف،جزء من رقم الحدیث ۱۰۵۳،۲/۵۴۳؛ و صحیح مسلم،کتاب الکسوف،باب ما عُرِض علی النبي صلى الله عليه وسلم في صلاۃ الکسوف من أمر الجنۃ و النار،جزء من رقم الحدیث ۱۱(۹۰۵)،۲/۶۲۴۔الفاظِ حدیث صحیح البخاري کے ہیں۔ [2] ،3‘4 ان الفاظ کے کہنے والے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے …… ہیں۔اُن کا یہ واضح کرنا روایت کے نقل کرنے میں ان کی شدید احتیاط اور امانت پر دلالت کرتا ہے۔رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی رَحْمَۃً وَّاسِعَۃً۔