کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 50
أَذَانٍ وَّ لَا إِقَامَۃٍ،ثُمَّ خَطَبَنَا،وَ دَعَا اللّٰہَ،وَ حَوَّلَ وَجْہَہٗ نَحْوَ الْقِبْلَۃِ رَافِعًا یَدَیْہِ،ثُمَّ قَلَّبَ رِدَائَ ہٗ،فَجَعَلَ الْأَیْمَنَ عَلَی الْأَیْسَرِ،وَ الْأَیْسَرَ عَلَی الْأَیْمَنِ۔[1] [اللہ تعالیٰ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز بارش طلب کرنے کے لیے باہر نکلے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت نماز پڑھائی۔پھر ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا۔(پھر)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔اپنے ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے اپنے چہرے کو قبلہ کی جانب پھیر لیا۔پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کو الٹا کر دائیں(کندھے کی)جانب والے حصے کو بائیں(کندھے)پر اور بائیں والے حصے کو دائیں پر کر دیا‘‘]۔ تنبیہ: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ استسقاء کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا۔سابقہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے،کہ خطبہ نمازِ استسقاء سے پہلے تھا۔ ان دونوں میں تطبیق …بقول شیخ ابن باز… یہ ہے،کہ دونوں طرح جائز ہے۔(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر خطبہ نمازِ استسقاء سے پہلے اور دوسرے موقع پر
[1] المسند،رقم الحدیث ۸۳۱،۱۶/۱۴۲(ط:دار المعارف بمصر)؛ الفاظِ حدیث مسند کے ہیں۔و سنن ابن ماجہ،أبواب إقامۃ الصلاۃ،باب ما جاء في صلاۃ الاستسقاء،رقم الحدیث ۱۲۶۱،۱/۲۳۱؛ و السنن الکبری،کتاب صلاۃ الاستسقاء،باب الدلیل علی أن السنۃ في صلاۃ الاستسقاء السنۃ في صلاۃ العیدین،…،رقم الحدیث ۶۴۰۱،۳/۴۸۴۔حافظ بوصیری نے سنن ابن ماجہ کی[سند کو صحیح اور راویان کو ثقہ]قرار دیا ہے۔شیخ احمد شاکر نے المسند کی[سند کو صحیح]اور شیخ ابن باز نے اس کی[سند کو حسن]کہا ہے۔(ملاحظہ ہو:مصباح الزجاجۃ في زوائد ابن ماجہ ۱/۲۳۱؛ و ہامش المسند ۱۶/۱۴۲؛ و تعلیق الشیخ ابن باز علی فتح الباري ۲/۵۰۰)۔