کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 48
۲۔ دوران گفتگو،خطیب کا لوگوں کے بالمقابل ہونا ۳۔ خواتین کو دعوت دینے کا اہتمام ۴۔ داعی کے ساتھ معاون کا ہونا vi:نمازِ استسقاء کے موقع پر خطبہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے [صَلَاۃُ الْاِسْتِسْقَآء] کے موقع پر خطبہ دینا ثابت ہے۔ دو دلائل: ۱:حضراتِ ائمہ ابو داؤد،ابن حبان،حاکم اور بیہقی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا: ’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: ’’لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور بارش نہ ہونے کی شکایت کی،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر رکھنے کا حکم دیا،چنانچہ وہ عیدگاہ میں رکھا گیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے ایک مقررہ دن میں نکلنے کا وعدہ فرمایا۔ ’’فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم حِیْنَ بَدَأَ حَاجِبُ الشَّمْسِ،فَقَعَدَ عَلَی المِنبَر فَکَبَّرَ وَ حَمِدَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ،ثُمَّ قَالَ: ’’إِنَّکُمْ شَکَوْتُمْ جَدْبَ دِیَارِکُمْ وَ اسْتِیْخَارَ الْمَطْرِ عَنْ إِبَّانِ زَمَانِہٖ عَنْکُمْ،وَ قَدْ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ أَنْ تَدْعُوْہُ،وَ وَعَدَکُمْ أَنْ یَسْتَجِیْبَ لَکُمْ۔‘‘ ثُمَّ قَالَ: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ … الحدیث۔‘‘[1]
[1] سنن أبي داود،جماع أبواب صلاۃ الإستسقاء و تفریعہا،باب رفع الیدین في الاستسقاء،جزء من رقم الحدیث ۱۱۷۰،ر/۲۵-۲۷؛ و الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان،کتاب الصلاۃ،باب ۷/۱۰۹-۱۱۰؛ و المستدرک علی الصحیحین،کتا بالاستسقاء ۱/۳۲۸؛ و السنن الکبری،کتاب صلاۃ الاستسقاء،باب ذکر الأخبار التي تدلّ علی أنہ دعا أو خطب قبل الصلاۃ،جزء من رقم الحدیث ۶۴۰۹،۳/۴۸۶-۴۸۷۔الفاظِ حدیث سنن أبي داود کے ہیں۔امام داود نے اس کی[سند کو جید]،امام حاکم نے[صحیحین کی شرط پر صحیح]کہا ہے۔حافظ ذہبی نے اُن کے ساتھ موافقت کی ہے۔شیخ البانی اور شیخ ارناؤوط نے اسے[حسن]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:سنن أبي داود ۴/۲۷؛ و المستدرک ۱/۳۲۸؛ و التلخیص ۱/۳۲۸؛ و صحیح سنن أبي داود ۱/۲۱۷؛ و ہامش الإحسان ۷/۱۱۰)۔