کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 43
السَّلَامُ صَلَّی الْفَجْرَ وَ صَعِدَ المِنْبَرَ...الحدیث۔لِوَرُوْدِہٖ نَادِرًا اِقْتَضَاہُ الْوَقْتَ،وَ لِکَوْنِہٖ بَیَانًا لِلْجَوَازِ،وَ کَأَنَّہٗ کَانَ وَاعِظًا،وَ الْکَلَامُ فِيْ الْخُطَبِ الْمُتَعَارِفَۃِ۔‘‘[1] اس(حدیث)میں جو(خطبہ کے مختصر ہونے والی)بات بیان کی گئی ہے،وہ [صحیح] مسلم والی روایت کے منافی نہیں،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے(نمازِ)فجر پڑھائی … الحدیث۔ کیونکہ یہ وقتی تقاضا کے پیشِ نظر ایک نادر واقعہ تھا۔(علاوہ ازیں)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرزِ عمل اس کے جواز کو بیان کرنے کی غرض سے تھا۔(مزید برآں)(خطبہ کے مختصر ہونے والی)بات معمول کے خطبات کے متعلق ہے اور اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم(خصوصی)وعظ(و نصیحت)فرما رہے تھے]۔ سات دیگر فوائد: ۱۔ مسجد میں وعظ و نصیحت کرنا ۲۔ داعی کا لوگوں کے سامنے بلند جگہ(منبر وغیرہ)پر کھڑے ہ کر خطاب کرنا ۳۔ بوقت ضرورت طویل خطاب کرنا ۴۔ دورانِ دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت بھی سلسلہ دعوت روک کر نمازوں کو باجماعت بروقت ادا کرنا ۵۔ داعی کا عبرت و نصیحت کی غرض سے زمانہ ماضی کے واقعات بیان کرنا ۶۔ داعی کا مستقبل میں پیش آنے والے معاملات کے متعلق راہنمائی کی غرض سے انہیں بیان کرنا ۷۔ حصول علم میں حفظ کی اہمیت و حیثیت
[1] ملاحظہ ہو:مرقاۃ المفاتیح ۳/۴۹۹-۵۰۰۔