کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 42
[’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں(نمازِ فجر پڑھائی،(پھر)منبر پر چڑھے اور ہمیں خطبہ دیا،یہاں تک کہ(نمازِ)ظہر کا وقت ہوا،(منبر سے نیچے)اترے اور نماز پڑھائی۔پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں خطبہ دیا،یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم(منبر سے نیچے)اُترے،ہمیں خطبہ دیا،یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو ہو چکا ہے اور جو ہونے والا ہے،اُس سے آگاہ فرمایا۔پس ہم میں سے سب سے زیادہ علم والا وہ ہے،جو ہم میں سے سب سے زیادہ یاد رکھنے والا ہے۔‘‘]
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ فجر کے بعد نمازِ ظہر کا وقت ہونے تک خطبہ ارشاد فرمایا۔پھر نمازِ ظہر کے بعد نماز عصر کے وقت تک خطبہ ارشاد فرمایا۔پھر نمازِ عصر کے بعد غروب آفتاب تک خطبہ ارشاد فرمایا۔امت کی تعلیم و تربیت کے لیے سینہ مبارک میں کس قدر تڑپ اور اہتمام تھا۔فَصَلَوَاتُ رَبِّيْ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْہِ۔
تنبیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازِ فجر ے بعد سے غروب آفتاب ظہر و عصر کی نمازوں کے علاوہ سارا دن تین طویل خطبات ارشاد فرمانا ایک استثنائی معاملہ تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طرزِ عمل ایسے نہ تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عموماً خطباتِ مبارکہ مختصر ہوتے۔
ملا علی قاری اس حدیث اور طویل خطبات والی حدیث میں بظاہر تعارض کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’لَا یُنَافِيْ فِيْ ہٰذَا مَا وَرَدَ فِيْ مُسْلِمٍ:أَنَّہٗ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ