کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 41
(Body language)اور قول میں موافقت اور یکسانیت کا ہونا۔
۲۔ دعوت کے لیے حسبِ ضرورت اور حالات بلند ترین آواز استعمال کرنا۔
۳۔ معجزاتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے مستقبل میں رونما ہونے والے حوادث کی خبر۔
۴۔ مستقل کی معلوم باتوں سے مخاطب لوگوں کو ضروری تیاری اور پیش بندی کرنے کی غرض سے آگاہ کرنا۔
۵۔ اسلوب ترہیب کا استعمال
۶۔ اظہارِ حقیقت اور دینی مصلحت کے پیشِ نظر ذاتی فضائل پر مشتمل حقائق کا بیان کرنا۔
۷۔ مستقبل میں پیش آنے والی مصیبت اور اس سے بچاؤ کی تدبیر کا بیان
۸۔ بیان کردہ حکم کے ساتھ اس کے سبب اور علّت کو بیان کرنا
۹۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے شدید خیر خواہی اور بے انتہای ہمدردی۔فَصَلَوَاتُ رَبِّيْ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْہِ۔
iii:فجر،ظہر اور عصر تینوں نمازوں کے بعد وعظ و نصیحت:
امام احمد اور امام مسلم نے حضرت ابو زید(یعنی عمرو بن اخطب)رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:
’’صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم الْفَجْرَ،وَ صَعِدَ المِنْبَرَفَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الظُّہْرُ فَنَزَلَ فَصَلّٰی،ثُمَّ صَعِدَ المِنْبَرَفَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الْعَصْرُ۔
ثُمَّ نَزَلَ فَصَلّٰی،ثُمَّ صَعِدَ المِنْبَرَفَخَطَبَنَا حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ۔
فَأَخْبَرَنَا بِمَا کَانَ وَ بِمَا ہُوَ کَآئِنٌ،فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا‘‘۔[1]
[1] المسند،رقم الحدیث ۲۲۸۸۸،۳۷/۵۲۵؛ و صحیح مسلم،کتاب الفتن و أشراط الساعۃ،باب إخبار النبي صلى الله عليه وسلم فیما یکون إلی قیام الساعۃ،۲۵(۲۸۹۲)/ ۲۲۱۷۔الفاظِ حدیث صحیح مسلم کے ہیں۔