کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 40
’’أَیُّہَا النَّاسُ! أَظْلَتْکُمُ الْفِتَنُ کَقِطْعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ۔ أَیُّہَا النَّاسُ! لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ بَکَیْتُمْ کَثِیْرًا،وَ ضَحِکْتُمْ قَلِیْلًا۔ أَیُّہَا النَّاسُ! اِسْتَعِیْذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،فَإِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ۔[1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن دوپہر کے وقت کپڑے میں لپٹے ہوئے باہر تشریف لائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھیں خوب سرخ تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند ترین آواز کے ساتھ اعلان فرما رہے تھے: [’’اے لوگو! تم پر فتنے تاریک شب کے ٹکڑوں کی مانند سایہ افگن ہو/ سایہ کر / چکے ہیں۔ اے لوگو! اگر تمہیں اس چیز کا علم ہوتا،جس کا مجھے علم ہے،تو تم بہت زیادہ روتے اور بہت تھوڑا ہنستے۔ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کے ساتھ قبر کے عذاب سے پناہ طلب کرو،کیونکہ عذاب قبر برحق ہے۔‘‘] اس حدیث سے یہ بات واضح ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوپہر کے وقت لوگوں کو فتنوں سے ڈرایا،اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف دلایا اور عذابِ قبر سے پناہ طلب کرنے کا حکم دیا۔ نو دیگر فوائد: ۱۔ داعی کی دعوت کا اس کے جسم سے ظاہر ہونا،بالفاظ دیگر داعی کی بدن بولی
[1] ملاحظہ ہو:المسند،جزء من رقم الحدیث ۲۴۵۲۰،۴۱/۶۷۔حافظ ہیثمی نے اس کے راویان کو[صحیح کے راویان]کہا ہے۔حافظ ابن حجر نے اس کی[سند کو بخاری]کی شرط پر اور شیخ ارناؤوط اور اُن کے رفقاء نے[صحیحین کی شرط]پر قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:مجمع الزوائد ۳/۵۵؛ و فتح الباري و/۲۳۶؛ و ہامش المسند ۴۱/۶۷)۔