کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 38
[’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور(مسلمان حاکم کی)سمع و طاعت کی وصیت کرتا ہوں،اگرچہ وہ حبشی غلام ہو،کیونکہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا،یقینا بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔پس تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم کرنا۔اسے پچھلی داڑھوں سے مضبوطی سے پکڑنا۔نئی باتوں سے بچنا،کیونکہ(دین میں)ہر نئی بات بدعت ہے اور بلاشبہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘]
اس حدیث میں یہ واضح ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو نمازِ فجر کے بعد وعظ و نصیحت فرمائی۔
اکیس دیگر فوائد:
۱۔ مسجد میں دعوت دینا
۲۔ دوران گفتگو داعی کا سامعین کی طرف متوجہ ہونا۔
۳۔ داعی کا قول بلیغ کے لیے اہتمام کرنا
۴۔ وعظ بلیغ کا سامعین پر اثر
۵۔ دینی مصلحت کے پیشِ نظر ذاتی فضیلت اور خوبی پر مشتمل واقعہ بیان کرنا۔
۶۔ سامعین کا متکلم کے رُوبرو دینی مصلحت کے پیش نظر اس کے حسنِ بیان کا ذکر کرنا۔
۷۔ سامعین کا داعی اور واعظ سے نصیحت کرنے کی فرمائش کرنا۔
۸۔ داعی کا …رکاوٹ نہ ہونے کی صورت میں… فرمائش پوری کرنا۔
۹۔ دعوتِ دین میں تقویٰ اور مسلمان حکمران کی سمع و طاعت کی حیثیت و اہمیت۔
۱۰۔ اسلامی ریاست میں حکمرانی کے سسٹم کے لیے …ظاہری کفر کے نہ ہونے تک… احترام اور سمع طاعت۔بالفاظِ دیگر ظاہری کفر کی عدم موجودگی میں صاحبِ اقتدار حاکم(Defacto Sover eign)کو،امت کو انتشار و افتراق سے بچانے کے لیے،تسلیم کرنا۔