کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 34
۵۔ اسلوب استفہام کا شدید ترغیب کے لیے استعمال کرنا۔ ۶۔ دعوت دینے کے بعد متابعت(Follow-up)بالفاظ ……دعوت کے ردِّعمل کو ملاحظہ کرنا اور صورتِ حال کے مناسب قدم اٹھاتے رہنا۔ ۷۔ شخصی عبادت کا دعوت کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دینا۔ ۸۔ دعوت کے اہتمام کا شخصی عبادت سے نہ ہٹانا،بلکہ شخصی عبادت اور دعوت کا حسین امتزاج۔ viii:دو تہائی شب گزرنے کے بعد وعظ و نصیحت: امام ترمذی نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا: ’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم إِذَا ذَہَبَ ثُلُثَا اللَّیْلِ قَامَ،فَقَالَ: ’’أَیُّہَا النَّاسُ! اُذْکُرُوْا اللّٰہَ! اُذْکُرُوْا اللّٰہَ۔ جَآئَ تِ الرَّاجِفَۃُ،تَتْبَعُہَا الرَّادِفَۃُ۔ جَآئَ الْمَوْتُ بِمَا فِیْہِ،جَآئَ الْمَوْتُ بِمَا فِیْہِ۔‘‘[1] [’’جب دو تہائی رات بیت جاتی،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر فرمایا کرتے تھے: ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ کو یاد کرو! اللہ تعالیٰ کو یاد کرو۔ بھونچال آ چکا ہے،اس کے پیچھے دوسرا بھونچال ہے۔ موت،جو کچھ اُس میں(سختیاں)ہیں،کے ساتھ آ چکی ہے، موت،جو کچھ اُس میں(سختیاں)ہیں،کے ساتھ آ چکی ہے۔‘‘] یہ حدیث واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو تہائی
[1] جامع الترمذي،أبواب صفۃ القیامۃ،باب،جزء من رقم الحدیث ۲۴۵۷،۷/۱۲۹۔امام ترمذی اور شیخ البانی نے اسے[حسن]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۷/۱۳۰؛ و صحیح سنن الترمذي ۲/۲۹۹)۔