کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 33
انہوں نے بیان کیا: ’’دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم وَ عَلٰی فَاطِمَۃَ رضی اللّٰه عنہا مِنَ اللَّیْلِ فَأَیْقَظَنَا لِلصَّلَاۃِ۔ ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی بَیْتِہٖ فَصَلّٰی ہَوِیًّا مِّنَ اللَّیْلِ،فَلَمْ یَسْمَعْ لَنَا حِسًّا،فَرَجَعَ إِلَیْنَا،فَأَیْقَظَنَا،فَقَالَ:’’قُوْمَا فَصَلِّیَا‘‘۔[1] [’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(ایک)رات میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے،تو ہمیں نمازِ(تہجد)کے لیے جگایا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس تشریف لے گئے اور رات دیر تک نماز پڑھتے رہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری کوئی کھڑکھڑاہٹ نہ سنی،تو ہمارے پاس دوبارہ تشریف لائے،تو ہمیں نماز کے لیے بیدار کرتے ہوئے فرمایا: [’’اٹھو اور نمازِ(تہجد)پھڑو۔‘‘] اس حدیث میں یہ بات واضح ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے ہاں نمازِ تہجد کی ترغیب دینے اور اس کے لیے بیدار کرنے کی خاطر رات کو دو مرتبہ تشریف لائے۔فَصَلَوٰاتُ رَبِّيْ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْہِ۔ آٹھ دیگر فوائد: ۱۔ شادی کے بعد بیٹی کے گھر جا کر دعوت دینا ۲۔ داماد کو دعوت دینا ۳۔ نفلی عبادت کی ترغیب ۴۔ بیٹی سے شدید پیار کا نفلی عبادت کی ترغیب میں رکاوٹ نہ ہونا۔
[1] سنن النسائي،کتاب قیام اللیل و تطوع النہار،باب الترغیب في قیام اللیل ۳/۲۰۶۔شیخ البانی نے اسے[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن النسائي ۱/۳۵۵)۔