کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 32
فاطمہ رضی اللہ عنہما کے ہاں نماز(تہجد کی ترغیب دینے)کی خاطر تشریف لائے]۔ شرحِ حدیث میں دو محدثین کے اقتباسات: i:علامہ قرطبی: ’’أَيْ أَتَاہُمَا لَیْلًا،وَ الطَّارِقُ ہُوَ الْآتِيْ بِاللَّیْلِ،وَ مِنْہُ سُمِّيَ النَّجْمُ طَارِقًا۔وَ ہٰذَا الْإِتْیَانُ مِنْہُ صلى اللّٰه عليه وسلم إِنَّمَا کَانَ مِنْہُ لِیُوْقِظَہُمَا لِلصَّلَاۃِ بِدَلِیْلِ قَوْلِہٖ:’’أَ لَا تُصَلُّوْنَ؟‘‘[1] [’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے ہاں رات کو تشریف لائے۔[الطَّارِقُ] [رات کو آنے والا] اور اسی سے [ستارے] کو [طَارِقٌ] کا نام دیا گیا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تشریف آوری انہیں نماز کے لیے بیدار کرنے کی غرض سے تھی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: [’’کیا تم نماز(تہجد)نہیں پڑھو گے؟‘‘] اس بات پر دلالت کرتا ہے۔‘‘ ii:علامہ ابن بطال: ’’فِیْہِ فَضِیْلَۃُ صَلَاۃِ اللَّیْلِ،وَ إِیْقَاظُ النَّائِمِیْنَ مِنَ الْأَہْلِ وَ الْقَرَابَۃِ لِذٰلِکَ‘‘۔[2] [’’اس(حدیث)میں نمازِ تہجد کی فضیلت اور اپنے کنبے اور رشتے داروں میں سے سوئے ہوئے لوگوں کو اس کے لیے جگانا ہے‘‘]۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہی رات میں دو دفعہ تشریف لانا: امام نسائی نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)
[1] المفہم ۲/۳۰۸۔نیز ملاحظہ ہو:حدیث پر امام طبری کا تبصرہ(حوالہ کے لیے دیکھیے:فتح الباري ۳/۱۱)۔ [2] بحوالہ:فتح الباري ۳/۱۱۔نیز ملاحظہ ہو:شرح صحیح البخاري لابن بطّال ۳/۱۱۵۔