کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 30
’’خبردار!(یعنی توجہ کرو)بے شک لوگوں نے نماز ادا کی اور پھر سو گئے اور بلاشبہ تم جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے،نماز ہی میں رہے۔‘‘] اس حدیث میں یہ بات واضح ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے(نماز کے انتظار کی غرض سے مسجد میں ٹھہرے رہنے)کی فضیلت کے متعلق حضرات صحابہ کو نصف رات کے قریب آگاہ فرمایا۔ امام بخاری نے اس حدیث کو درجِ ذیل عنوان والے باب میں روایت کیا ہے: [بَابُ السَّمَرِ فِيْ الْفِقْہِ وَ الْخَیْرِ بَعْدَ الْعِشَائِ] [1] [عشاء کے بعد سونے سے پہلے فقہ اور خیر کے سلسلے میں گفتگو کے متعلق باب] تنبیہ: علامہ عینی مذکورہ بالا اور اس سے پہلے والی حدیث سے معلوم ہونے والی باتوں کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’عشاء کے بعد ممنوع بے کار گفتگو ہے۔ابن سیرین،قاسم اور اُن کے ساتھی عشاء کے بعد دین کی بات چیت کیا کرتے تھے۔‘‘[2] دیگر فوائد: ۱۔ سامعین کی تنبیہ اور بھرپور توجہ مبذول کروانے کی غرض سے آغاز میں حرف [أَلَا] استعمال کرنا۔[3] ۲۔ [اسلوب تقابل] استعمال کرنا۔ ۳۔ داعی کا سامعین کے ذہنوں میں آنے والے متوقع سوال کا خود ہی پہلے سے جواب دے دینا۔
[1] المرجع السابق ۲/۷۳۔ [2] عمدۃ القاري ۵/۹۷۔ [3] ملاحظہ ہو:مختار الصحاح،مادہ[ا ل ا]،ص ۲۴۔