کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 29
۶۔ اتباع اور پیروکاروں کا طے شدہ مقام پر امیر،امام،پیشوا اور داعی سے پہلے موجود ہونا۔ ۷۔ خدمتِ دین میں خواتین کا قابلِ قدر حصہ ۸۔ تنظیمی اور دعوتی کاموں میں امیر و داعی کا اپنے ہمراہ معاون اور ساتھی کا لانا۔ ۹۔ امیر و امام اور داعی سے پہلے معاون و رفیق کا تمہیدی کلمات کہنا۔ ۱۰۔ دین کی خاطر سب کچھ نثار اور فدا کرنے کے لیے مستعد ہونا۔ ۱۱۔ قرآن کریم کے ساتھ دعوت دینا۔ ۱۲۔ اسلوب ترغیب کا استعمال ۱۳۔ گفتگو میں تشبیہ و تمثیل کا استعمال ۱۴۔ گفتگو میں تاکید کی خاطر قسم اٹھانے کے تقاضا کے بغیر قسم اٹھا کر بات بیان کرنا۔ ۱۵۔ دینی مصلحت کے پیشِ نظر آباء و اجداد اور اپنے فضائل و مناقب بیان کرنا۔ vi:آدھی رات کے قریب وقت میں دعوت و توجیہ: امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا: ’’نَظَرْنَا النَّبْيُ صلى اللّٰه عليه وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ،حَتّٰی کَانَ شَطْرُ اللَّیْلِ یَبْلُغُہٗ،فَجَآئَ فَصَلّٰی لَنَا،ثُمَّ خَطَبَنَا،فَقَالَ: ’’أَ لَا إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلُّوْا،وَ رَقَدُوْا،وَ إِنَّکُمْ لَمْ تَزَالُوْا فِيْ الصَّلَاۃِ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلَاۃَ۔‘‘[1] [’’ایک رات ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے،یہاں تک کہ قریباً آدھی رات ہو گئی،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمیں نماز پڑھائی۔پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
[1] صحیح البخاري،کتاب مواقیت الصلاۃ،رقم الحدیث ۶۰۰،۲/۷۳۔