کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 27
لِرَبِّکَ مَا أَجَبْتَ‘‘۔ [’’یقینا آپ نے جو کہا ہم نے اسے(اچھی طرح)سُن لیا،سو اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !(اب)آپ فرمائیے اپنے اور اپنے گفتگو کرنے والے عباس بن عبدالمطلب تھے۔‘‘] انہوں نے بیان کیا: ’’فَتَکَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم فَتَلَا الْقُرْآنَ،وَ دَعَا إِلَی اللّٰہِ،وَ رَغَّبَ فِيْ الْإِسْلَامِ۔ [’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو فرمائی۔قرآن(کریم)کی تلاوت کی،اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور اسلام لانے کی ترغیب دی۔‘‘] پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أُبَایِعُکُمْ عَلٰی أَنْ تَمْنَعُوْنِيْ مِمَّا تَمْنَعُوْنَ مِنْہُ نِسَائَکُمْ وَ أَبْنَائَ کُمْ‘‘۔ [’’میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں،کہ تم میری(ہر)اس چیز سے حفاظت کرو گے،جس سے تم اپنی خواتین اور بیٹوں کی حفاظت کرتے ہو۔‘‘] انہوں نے بیان کیا: ’’فَأَخَذَ الْمَعْرُوْرُ بِیَدِہٖ،فَقَالَ: [’’تو معرور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ……… تھام لیا،پھر ………: ’’نَعَمْ،وَ الَّذِيْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ! لَنَعْنَعَنَّکَ مِمَّا نَمْنَعُ مِنْہُ أَزْرَنَا،فَبَایَعْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَنَحْنُ وَ اللّٰہِ! أَبْنَائُ الْحَرْبِ،وَ أَہْلُ الْحَلَقَۃِ،وَرَثْنَاہَا کَابِرًا عَنْ کَابِرٍ۔‘‘[1]
[1] الیسیرۃ النبویۃ لابن ہشام،القسم الأول/ ۴۴۰-۴۴۱ باختصار۔امام احمد اور امام ابن حبان نے بھی ابن اسحاق کی سند سے روایت کیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المسند،رقم الحدیث ۱۵۷۹۸،۲۵/۸۹-۹۷؛ و الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان،کتاب إخبارہ صلى الله عليه وسلم عن مناقب الصحابۃ رجالہم و نسائہم،ذکر البراء بن معرور بن صخر بن خنسآء رضوان اللہ علیہ،رقم الحدیث ۷۰۱۱،۱۵/۴۷۱-۴۷۳۔حافظ ہیثمی لکھتے ہیں:امام احمد نے اسے روایت کیا ہے اور قریباً اسی طرح امام طبرانی نے۔(امام)احمد کے ابن اسحاق کے سوا دیگر راویان[صحیح کے روایت کرنے والے ہیں اور ابن اسحاق نے بھی(اس روایت کے اپنے شیخ سے)سننے کی صراحت کی ہے۔(یعنی تدلیس کا اندیشہ نہیں رہا،کہ انہوں نے اپنے شیخ سے اس روایت کو سُنا ہی نہ ہو)۔(مجمع الزوائد ۶/۴۵)۔نیز ملاحظہ ہو:ہامش المسند ۲۵/۹۵-۹۶؛ و ہامش الإحسان ۱۵/۴۷۳-۴۷۴؛ و ہامس السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ للدکتور العمري ۱/۲۰۱)۔