کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 22
رُؤْیَتِہٖ۔فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَّا تُغْلَبُوْا عَلٰی صَلَاۃٍ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِہَا۔‘‘ یَعْنِيْ الْعَصْرَ وَ الْفَجْرَ۔ ثُمَّ قَرَأَ جَرِیْرٌ رضی اللّٰه عنہ:﴿وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِہَا﴾[1]-[2] [’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا،تو فرمایا: ’’(سُنو)تم یقینا اپنے رب(تعالیٰ)کو دیکھو گے،جیسے تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو،اُن کے دیکھنے کے لیے آپس میں گتھم گتھا نہ ہو گے۔سو اگر تم استطاعت رکھو،کہ طلوع شمس سے پہلے والی نماز اور اس کے غروب سے پہلے والی نماز کے بارے میں مغلوب نہ ہونا۔‘‘[3] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود(نماز)عصر اور فجر ہیں۔‘‘ پھر جریر رضی اللہ عنہ نے(قرآن کریم کی یہ آیت)پڑھی:[ترجمہ:اور سورج طلوع ہونے سے پہلے اور اُس کے غرویب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے]۔
[1] سورۃ طٰہ/ جزء من الآیۃ ۱۳۰۔ [2] متفق علیہ:صحیح البخاري،کتاب مواقیت الصلاۃ،باب فضل صلاۃ العصر،رقم الحدیث ۵۵۴،۲/۳۳؛ و صحیح مسلم،کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ،باب فضل صلاتي الصبح و العصر و المحافظۃ علیہما،رقم الحدیث ۲۱۱-(۶۳۳)،۱/۴۳۹۔الفاظِ حدیث صحیح مسلم کے ہیں۔ [3] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مقصد یہ ہے،کہ نمازِ عصر اور نمازِ فجر کی تاحدِّ استطاعت حفاظت کرو۔(ملاحظہ ہو:فتح الباري لابن رجب ۳/۱۳۶)۔اس اہتمام و حفاظت سے دیدارِ الٰہی نصیب ہو گا۔اے ربِّ کریم! اس بے مثال سعادت سے محروم نہ رہنے دینا۔آمین یا رب العالمین۔(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:راقم السطور کی کتاب:باجماعت نماز کی اہمیت ص………۔