کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 21
نافرمانی نہیں کریں گے۔‘‘
اگر ہم نے اس(بیعت کی باتوں)کی پابندی کی،تو ہمارے لیے جنت ہے اور اگر ہم نے ان(باتوں میں)سے کسی کا ارتکاب کیا،تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کریں گے‘‘]۔
پہلی روایت میں یہ بات واضح ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات انصار رضی اللہ عنہما سے عقبہ اولیٰ کی بیعت رات کے وقت لی۔
چھ دیگر فوائد:
۱۔ دعوتِ دین کا ایک ذریعہ اور وسیلہ [بیعت کا لینا]۔
۲۔ دعوتی امور و معاملات میں [تنظیم و ترتیب اور ذمہ داریوں کی تقسیم]۔
۳۔ مصلحتِ دعوت کے پیش [ذاتی منقبت اور فضیلت والی بات کا بیان کرنا]۔
۴۔ غیر معمولی اہمیت والے موضوعاتِ دعوت میں سے [شرک،چوری،زنا،قتل ناحق،مار اور نافرمانی سے روکنا]۔
۵۔ دعوت میں [تعمیم بعد التخصیص کے اسلوب] کا استعمال۔پہلے نافرمانی کے چھ اعمال:شرک،چوری،… کا ذکر کیا گیا۔پھر [نافرمانی] کا ذکر کیا گیا،جس میں سابقہ چھ اور دیگر نافرمانی کے سب کام شامل ہیں۔
۶۔ [اسلوب ترغیب] کا استعمال۔
iii:چودھویں رات کا چاند دیکھتے ہوئے فجر و عصر کی حفاظت کی تلقین:
امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)وہ بیان کرتے ہیں:
’’کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم إِذْ نَظَرَ إِلَی الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ فَقَالَ:
’’أَمَا إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَمَا تَرْوَنَ ہٰذَا الْقَمَرَ لَا تَضَامُوْنَ فِيْ