کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 19
۴۔ جواب دیتے ہوئے قسم کھانا۔ ۵۔ بوقتِ ضرورت اور بغرضِ مصلحت داعی کے روبرو اس کے حق میں گواہی دینا اور اس کی سچی تعریف کرنا۔ ۶۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے سچی پیش گوئیاں۔ ۷۔ مستقبل کے بارے میں قرآن و سنت سے ثابت شدہ اچھی خبروں کی اہل اسلام کو بشارت دینا،تاکہ اُن کے حوصلے بلند ہوں۔ ۸۔ مستقبل میں رونما ہونے والی نامناسب باتوں اور اُن کے بُرے انجام سے مخاطب لوگوں کو آگاہ کرنا،تاکہ ان باتوں سے نفرت اور دُور رہنے کا جذبہ امت میں زندہ اور قوی ہو۔بالفاظ دیگر مستقبل میں ہونے والے بُرے اعمال اور اُن کے سنگین نتائج کے بیان کو ایسے اعمال سے بچانے کی خاطر موضوع دعوت بنانا۔ ۹۔ دعوتِ دین دیتے ہوئے،داعی کا سامعین کو سوال و جواب کے ذرعیہ گفتگو میں شریک کرنا۔ ۱۰۔ لوگوں کے انجام کا اُن کے ظاہر اور دوسروں کے ان کے متعلق گمان کے مطابق ہمیشہ نہ ہونا۔ ۱۱۔ کسی کے بیان اور ظاہری اعمال کی بنیاد پر مبنی رائے اور فیصلے کا حتمی اور یقینی نہ ہونا۔ ii:انصار سے عقبہ اولیٰ کی بیعت کا رات کو لینا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت و تبلیغ کا عمل رات میں سرانجام دینے کے سلسلے میں ایک دلیل یہ ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موسمِ حج میں مدینہ طیبہ سے منٰی آنے والے انصار سے رات کے وقت بیعت لی۔ امام بخاری نے ابو ادریس عائذ اللہ بن عبداللہ سے روایت نقل کی ہے: ’’أَنَّ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ رضی اللّٰه عنہ … وَ کَانَ شَہِدَ بَدْرًا،وَ ہُوَ