کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 181
’’میں جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔‘‘ وَ قُلْ لِّقَوْمِيْ الْأَنْصَارِ: ’’لَا عُذْرَ لَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَنْ یُخْلَصَ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم،فِیْکُمْ شُفْرٌ یَطْرِفُ۔‘‘ ’’اور میری قوم انصار سے کہنا: ’’اگر تم میں سے ایک بھی آنکھ کے جھپکتے ہوئے(یعنی تمہاری زندگی میں)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک دشمن پہنچ گئے،تو اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارا کوئی عذر قابلِ قبول نہ ہو گا۔‘‘ ’’وَ فَاضَتْ نَفْسُہٗ۔رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔‘‘[1] ’’پھر اُن کی روح اُن کے جسم سے پرواز کر گئی۔رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔‘ اس روایت میں یہ بات واضح ہے،کہ حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ نے زندگی کے آخری لمحات میں اپنی قوم انصار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور بچاؤ کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کی پرزور تلقین کی۔ دیگر فوائد: ۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ رضی اللہ عنہما کی خبرگیری کے لیے شدید اہتمام کرنا ۲۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ساتھی رضی اللہ عنہ کو نام لے کر سلام بھیجنا ۳۔ صحابی رضی اللہ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کے لیے بے پناہ اہتمام کرنا ۴۔ دعوت و وصیت میں اسلوب ترہیب استعمال کرنا
[1] المستدرک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابۃ ۳/۲۰۱۔امام حاکم نے اس کی[سند کو صحیح]اور حافظ ذہبی نے اس حدیث کو[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۳/۲۰۱؛ و التلخیص ۳/۲۰۱)۔نیز ملاحظہ:الموطا الإمام مالک،کتاب الجہاد،باب الترغیب في الجہاد،رقم الروایۃ ۴۱،۲/۴۶۵-۴۶۶؛ و السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ۳/۳۸-۳۹؛ و السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ للدکتور اکرم ضیاء العمري ۲/۳۸۶۔