کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 18
اور یقینا لوگوں پر ایک زمانہ ضرور آئے گا،(کہ)وہ اُس میں قرآن سیکھیں گے۔وہ اُسے سیکھیں گے اور پڑھیں گے،پھر کہیں گے:
’’بے شک ہم نے پڑھا اور ہم نے سیکھا،پس کون ہے،جو ہم سے بہتر ہے؟‘‘
تو کیا اُن لوگوں میں کوئی خیر ہو گی؟‘‘
انہوں(یعنی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہما)نے پوچھا:
’’مَنْ أُولٰئِکَ؟‘‘
[’’وہ کون لوگ ہیں؟]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
’’أُولٰئِکَ مِنْکُمْ،وَ أُوْلٰئِکَ ہُمْ وَقُوْدُ النَّارِ‘‘۔[1]
[’’وہ لوگ تم میں سے ہیں اور وہ لوگ ہی(دوزخ کی)آگ کا ایندھن ہیں‘‘]۔
اس حدیث میں یہ بات واضح ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے دوران دعوت و ارشاد کا عظیم عمل سرانجام دیا۔
گیارہ دیگر فوائد:
۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوتِ الٰہی پہنچانے کی ذمہ داری کے متعلق اہتمام اور فکرمندی۔
۲۔ مصلحت کے پیشِ نظر گفتگو میں تکرار
۳۔ مخاطب لوگوں کا دورانِ گفتگو داعی کو جواب دینا۔
[1] صحیح الترغیب و الترہیب،کتاب العلم،الترہیب من الدعوی في العلم و القرآن،رقم الحدیث ۱۳۷(۴)،۱/۱۶۶-۱۶۷۔حافظ منذری نے لکھا ہے،کہ اسے(امام)طبرانی نے(المعجم)الکبیر میں روایت کیا ہے اور اس کی[سند إن شاء اللّٰہ تعالٰی حسن]ہے،شیخ البانی نے اسے[حسن لغیرہ]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:الترغیب و الترہیب ۱/۱۳۰؛ و صحیح الترغیب و الترہیب ۱/۱۶۷)۔