کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 17
امام طبرانی نے حضرتِ فضل اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی والدہ(جو کہ ام فضل کی کنیت سے مشہور تھیں،رضی اللہ عنہا)کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں)روایت نقل کی ہے: ’’أَنَّہٗ قَامَ لَیْلَۃً بِمَکَّۃَ مِنَ اللَّیْلِ،فَقَالَ: ’’اَللّٰہُمَّ ہَلْ بَلَّغْتُ؟‘‘ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ‘‘۔ بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم راتوں میں سے ایک رات مکہ(مکرمہ)میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: [’’اے اللہ! کیا میں نے(پیغامِ حق)پہنچا دیا؟‘‘](آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جملہ)تین مرتبہ(ارشاد فرمایا)۔ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے …اور وہ بہت زیادہ آہ و بکا کرنے والے تھے… اور عرض کیا: ’’اَللّٰہُمَّ! نَعَمْ،وَ حَرَّضْتَ،وَ جَہَّدْتَّ،وَ نَصَحْتَ‘‘۔ [’’اللہ تعالیٰ کی قسم!(جی)ہاں،اور آپ نے خوب ترغیب دی ہے،بہت جدوجہد اور خیر خواہی کی ہے‘‘]۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لَیَظْہَرَنَّ الْاِیْمَانُ حَتّٰی یُرَدَّ الْکُفْرُ اِلٰی مَوَاطِنِہٖ،وَ لَتُخَاضَنَّ الْبِحَارُ بِالْاِسْلَامِ،وَ لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَّتَعَلَّمُوْنَ فِیْہِ الْقُرْآنَ،یَتَعَلَّمُوْنَہٗ وَ یَقْرَؤُوْنَہٗ،ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ:’’قَدْ قَرَأْنَا وَ عَلَّمْنَا،فَمَنْ ذَا الَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ مِّنَّا؟ فَہَلْ فِيْ أُولٰئِکَ مِنْ خَیْرٍ؟‘‘ [’’یقینا ایمان ضرور غالب ہو گا،یہاں تک کہ کفر اپنی جگہوں کی طرف لوٹایا جائے گا اور یقینا تم ضرور اسلام کے ساتھ دریاؤں میں داخل ہو جاؤ گے۔