کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 160
[کیا تم موجود تھے،جب یعقوب-علیہ السلام-کو موت آئی،جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا …؟] ii:دونوں-علیہما السلام-نے یہ وصیت(صرف)ایک مرتبہ نہیں کی،بلکہ اسے متعدد دفعہ دہرایا۔ حافظ ابن جوزی لکھتے ہیں: وَ [وَصّٰی] أَبْلَغُ مِنْ [أَوْصٰی] لِأَنَّہَا تَکُوْنُ لِمَرَّاتٍ کَثِیْرَۃٍ۔‘‘[1] [’’اور [أَوْصٰی] کے مقابلے میں [وَصّٰی] بہت زیادہ بلیغ ہوتا ہے،کیونکہ اس [وَصّٰی] میں(وصیت کا)زیادہ بار کرنا ہوتا ہے۔‘‘] علامہ قرطبی(وَصّٰی)کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’وَ فِیْہِ مَعْنَی التَّکْثِیْرِ۔‘‘[2] [اور اس میں بہت زیادہ(دفعہ وصیت کرنے)کا معنی ہے۔‘‘] iii:علامہ قرطبی:﴿وَ لَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَ أَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾ کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں: ’’إِیْجَازٌ بَلِیْغٌ،وَ الْمَعْنٰی:اِلْزَمُوْا الْإِسْلَامَ،وَ دَوَمُوْا عَلَیْہِ،وَ لَا تُفَارِقُوْہُ حَتّٰی تَمُوْتُوْا۔فَأَتٰي بِلَفْظٍ مُوْجَزٍ یَتَضَمَّنُ الْمَقْصُوْدَ،وَ یَتَضَمَّنُ وَعْظًا وَ تَذْکِیْرًا کَالْمَوْتِ،وَ ذٰلِکَ أَنَّ الْمَرْئَ یَتَحَقَّقُ أَنَّہٗ یَمُوْتُ وَ لَا یَدْرِيْ مَتٰی،فَإِذَا أُمِرَ بِأَمْرٍ لَا یَأْتِیْہِ الْمَوْتُ إِلَّا وَ ہُوَ عَلَیْہِ،فَقَدْ تَوَجَّہَ الْخِطَابُ مِنْ وَقْتِ الْأَمْرِ دَائِبًا لَازِمًا۔‘‘[3]
[1] زاد المسیر ۱/۱۴۹۔ [2] تفسیر القرطبي ۲/۱۳۵۔ [3] المرجع السابق ۲/۱۳۶-۱۳۷۔