کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 16
[’’یعنی لگاتار،بغیر کوتاہی اور بلاتوقف‘‘]۔
۲۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات دن دعوت دینا:
امام ابن قیم نے تحریر کیا ہے:
’’لَمَّا نَزَلَ عَلَیْہِ:﴿یَآ أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ۔قُمْ فَأَنْذِرْ۔وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ۔وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرْ﴾[1] شَمَّرَ صلى اللّٰه عليه وسلم عَنْ سَاقِ الدَّعْوَۃِ،وَ قَامَ فِيْ ذَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی أَتَمَّ قِیَامٍ،وَ دَعَا إِلَی اللّٰہِ لَیْلًا وَّ نَہَارًا،وَ سِرًّا وَّ جِہَارًا‘‘۔[2]
’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر(حسبِ ذیل آیات)نازل ہوئیں:
[ترجمہ:اے کمبل میں لپٹنے والے! اٹھ کھڑے ہو جائیے اور ڈرائیے اور صرف اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے اور اپنے کپڑے،سو پاک کیجیے]۔
(تو)،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعوت کے لیے کمربستہ ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے لیے کامل ترین صورت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔رات،دن(یعنی ہر میسر آنے والے وقت میں)اور سری اور جہری(یعنی ہر ممکن جائز طریقے سے)دعوت دی‘‘]۔
سیرتِ طیّبہ سے شواہد
اس سلسلے میں قدرے تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:
ا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے مختلف اوقات میں دعوت دینا:
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ حال رات کے تمام اوقات میں دعوت،توجیہ،تعلیم،تربیت اور تزکیہ کے عظیم اور مقدّس عمل کو جاری رکھا۔توفیقِ الٰہی سے ذیل میں اس حوالے سے سیرت سے مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
i:مکہ مکرمہ میں رات کو دعوت و ارشاد:
[1] سورۃ المدثر/ الآیات ۱-۴۔
[2] زاد المعاد ۳/۱۲۔