کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 156
[’’بلاشبہ جب اللہ تعالیٰ کے نبی نوح علیہ السلام کی وفات کا وقت آیا،تو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا: [’’یقینا میں تجھے وصیت کرنے لگا ہوں: میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے منع کرتا ہوں: میں تجھے [لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ] [1] کا حکم دیتا ہوں،کیونکہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھی جائیں اور(لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ)دوسرے پلڑے میں رکھا جائے،تو [لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ] اُن(سب)پر بھاری ہو گا۔ اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں(مکمل طور پر)ایک بند حلقہ ہو،تو [لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ] اُن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ [سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ][2] کا حکم دیتا ہوں،کیونکہ یہ [کلمات] ہر چیز کی نماز ہیں اور انہیں کے ساتھ مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے۔ اور میں تجھے سڑک اور تکبّر سے منع کرتا ہوں۔‘‘] اس واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں،کہ موت کی مصیبت نے انہیں بیٹے کو خیر کا حکم دینے اور شر سے باز رہنے سے مشغول نہیں کیا۔ دیگر فوائد: ۱۔ احادیث کا بھی من جانب اللہ ہونا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ سے بذریعہ وحی غیر متلو[3] آگاہی
[1] (لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ):[ترجمہ:نہیں کوئی معبود مگر اللہ تعالیٰ] [2] (سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ):[ترجمہ:اللہ تعالیٰ(ہر عیب،خلل،نقص سے)پاک ہیں اپنی تعریف کے ساتھ] [3] (وحی غیر متلوّ):ایسی وحی،جس کی نماز میں تلاوت نہیں کی جاتی۔حدیث شریف[وحی غیر متلوّ]اور قرآن کریم[وحی متلوّ]ہے۔