کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 136
متعدد لوگوں کا دینا ۳۔ اہلِ ایمان میں سے کمزور ایمان والے لوگوں کا بسا اوقات ظاہری حالات و اسباب سے متاثر ہونا ۴۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے یقینا کا داعی کے فکر کے نکھار اور بیان کی قوت کا سبب ہونا ۵۔ داعی کی تاریخ انسانی میں جاری سننِ الٰہیہ سے آگاہی اور بوقتِ ضرورت اُن سے استشہاد و استدلال کرنا ۶۔ داعی کا بیان کردہ بات کا سبب بیان کرنا[1] ۷۔ داعی کا ذکر کردہ سبب کے حصول کے ذریعہ سے آگاہ کرنا،کہ فتح و نصرت کے لیے اذن الٰہی کا حصول صبر کے ساتھ ہوتا ہے۔ ۸۔ حکمِ الٰہی سے بسا اوقات دعوت کا فوری طور پر حیرت انگیز اثر ہونا۔[2] ۳۔غزوۂ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانوں کا اللہ تعالیٰ کے لیے نذرانہ پیش کرنے کی ترغیب: امام مسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا: ’’فَانَطْلَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم وَ أَصْحَابُہٗ،حَتّٰی سَبَقَ الْمُشْرِکِیْنَ إِلٰی بَدْرٍ۔‘‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ-رضی اللہ عنہما-روانہ ہوئے،یہاں تک کہ
[1] مضبوط ایمان والوں نے ذکر کیا،کہ کتنی ہی تھوڑی تعداد والی جماعتیں،بڑی تعداد والی جماعتوں پر غالب ہو جاتی ہے،پھر اس کا سبب بیان کیا،کہ فتح و نصرت تو حکمِ الٰہی سے حاصل ہوتی ہے۔سو جس کی فتح کے لیے حکم الٰہی ہوا،فتح صرف اسی کی ہو گی۔ [2] ملاحظہ ہو:تفسیر السعدي ص ۱۰۸۔