کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 135
[’’آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں سے مقابلے کی بالکل طاقت نہیں۔‘‘] جو لوگ سمجھتے تھے،کہ بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے والے ہیں،انہوں نے کہا: [’’کتنی ہی تھوڑی(تعداد والی)جماعتیں بہت بڑی(تعداد والی)جماعتوں پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آ گئیں اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔‘‘] اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلے میں آئے،(تو)کہنے لگے: [’’اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دیجیے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرمائیے اور کافر لوگوں کے خلاف ہماری مدد فرمائیے۔‘‘] تو اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں شکست دی۔] اس واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں،کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے معرکہ آرائی سے پہلے لشکرِ طالوت کے پختہ یقین اور قومی ایمان والے حضرات نے کمزور ایمان والے لوگوں کو حوصلہ دیا اور دشمن سے جہاد کی ترغیب دی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعوت میں اثر پیدا فرمایا۔کمزور ایمان والے بھی پختہ ایمان والوں کے ساتھ جالوت کے لشکروں کے خلاف دعائیں کرتے ہوئے مقابلہ میں آئے اور حکمِ الٰہی سے انہیں شکست دی۔ دیگر فوائد: ۱۔ بوقتِ ضرورت قیادت کی موجودگی میں دیگر لوگوں کا دعوت دینا ۲۔ حسبِ حالات ایک ہی موقع پر،سلیقے اور طریقے سے ایک ہی بات کی دعوت،