کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 134
دیکھ کر شدید گھبراہٹ میں مبتلا ہو گئے۔اسی موقع پر مضبوط اور قومی ایمان والوں نے انہیں جہاد کے لیے ابھارا۔ربِّ کریم نے اس بارے میں فرمایا: ﴿فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ قَالَ اِنَّ اللّٰہُ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَہَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ فَاِنَّہٗ مِنِّیْٓ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃً بِیَدِہ فَشَرِبُوْا مِنْہُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْہُمْ فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ہُوَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالَ الَّذیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔فَہَزَمُوْہُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾[1] [’’پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر جُدا(یعنی روانہ)ہوا،(تو)کہا: [’’بے شک اللہ تعالیٰ ایک نہر کے ساتھ تمہاری آزمائش کرنے والے ہیں۔پس جس نے اُس سے میں پیا،وہ مجھ سے نہیں اور جس نے اُس سے نہ چکھا،تو یقینا وہ مجھ سے ہے،مگر جو اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر پانی لے لے۔‘‘] تو اُن میں سے تھوڑے لوگوں کے سوا سب نے اُس سے پی لیا۔ پھر جب وہ اور اُس کے ساتھ وہ لوگ نہر سے پار ہو گئے،جو ایمان لائے تھے، (تو)اُنہوں نے کہا:[2]
[1] سورۃ البقرۃ/ الآیات ۲۴۹-۲۵۱۔ [2] ان کہنے والوں کے متعلق دو اقوال ہیں۔اکثر مفسرین کی رائے میں وہ اہل ایمان ہی میں سے کمزور ایمان والے تھے۔(ملاحظہ ہو:تفسیر القرطبي ۳/۲۵۵؛ و فتح القدیر ۱/۴۰۲؛ و روح المعاني ۲/۱۷۱؛ و تفسیر السعدي ص ۱۰۸؛ و جواہر القرآن ص ۱۲۰،فائدۃ ۴۸۹)۔ بعض مفسرین کی رائے میں یہ رگ خوب سیر ہو کر پانی پینے والے اہل شرک اور نفاق تھے۔(ملاحظہ ہو:تفسیر الطبري ۵/۳۵۰-۳۵۲؛ و تفسیر المنار ۲/۴۸۷-۴۸۸)۔ دونوں میں سے جس قول کو بھی اختیار کیا جائے،لیکن یہ بات تو بلانزاع ہے،کہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھنے والے اہلِ ایمان نے جالوت کے لشکروں سے معرکہ آرائی سے پہلے دعوت دی۔