کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 114
بِہَا عَلٰی ضُعَفَآئِ کُمْ،وَ أَہْلِ مِلَّتِکُمْ،وَ إِنَّمَا ہِيَ مِنْ زِیْنَۃِ الدُّنْیَا وَ غُرُوْرِہَا،وَ قَدْ زَہَّدَ اللّٰہُ فِيْ الدُّنْیَا،وَ ذَمَّہَا،وَ نَہٰی عَنِ الْبَغْيِ وَ السَّرَفِ فِیْہَا۔فَأَنَا أَجْلِسُ ہَاہُنَا عَلَی الْأَرْضِ،وَ کَلِّمُوْنِيْ أَنْتُمْ بِحَاجَتِکُمْ مِنْ ثَمَّ،وَ أَقِیْمُوْا التَّرْجُمَانَ بَیْنِيْ وَ بَیْنَکُمْ فَلْیُفْہِمْنِيْ مَا تَقُوْلُوْنَ،وَ لْیُفْہِمْکُمْ مَا أَقُوْلُ۔‘‘ [’’یقینا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا،کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کے لیے بھی کھڑے نہ ہوں اور ہمارا قیام نماز،عبادت اور اللہ تعالیٰ کی جانب رغبت کرتے ہوئے اُنہی کے لیے ہو۔میرا یہ کھڑا ہونا تمہارے(احترام کے)لیے نہیں،بلکہ میں تو ان قالینوں پر چلنے اور ان تکیوں پر بیٹھنے کو سنگین غلطی گردانتے ہوئے،اُن سے گریز کرتے ہوئے(یہاں)کھڑا ہوں،کیونکہ تم نے اپنے کمزور لوگوں اور ہم مذہب لوگوں کی حق تلفی کرتے ہوئے،انہیں اپنے لیے مخصوص کر لیا ہوا ہے۔بلاشبہ یہ(سب کچھ)تو دنیا کی زینت اور دھوکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بارے میں بے رغبتی کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔لہٰذا میں یہیں زمین پر بیٹھتا ہوں اور تم اپنی ضرورت کی بات اپنی جگہ ہی سے کرو۔میرے اور اپنے درمیان ایک ترجمان مقرر کرو،جو تمہاری بات مجھے اور میری بات تمہیں سمجھائے۔‘‘] پھر معاذ رضی اللہ عنہ اور اُن کے درمیان گفتگو جاری ہوئی،تو انہوں نے ترجمان سے کہا: ’’قُلْ لَہٗ:’’أَخْبِرُوْنَا مَا تَطْلُبُوْنَ؟ وَ إِلٰی مَا تَدْعُوْنَ؟‘‘ [’’اُس سے کہو:’’ہمیں بتلاؤ،کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اور تم کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہو؟‘‘]