کتاب: دعوت دین کس وقت دی جائے - صفحہ 103
صَفَّاہُمَا،قَالَ زَیْدٌ رضی اللّٰه عنہ: ’’یَا رَجَّالُ! اَللّٰہَ اَللّٰہَ! فَوَ اللّٰہِ! لَقَدْ تَرَکْتَ الدِّیْنَ وَ إِنَّ الَّذِيْ أَدْعُوْکَ إِلَیْہِ لَأَشْرَفُ لَکَ،وَ أَکْثَرُ لِدُنْیَاکَ۔ [’’الرجال زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مقابل تھا۔جب دونوں کی صفیں ایک دوسرے کے قریب ہوئیں،تو زید-رضی اللہ عنہ-نے فرمایا: [’’اے الرجال! ڈرو اللہ(تعالیٰ سے)! ڈرو اللہ(تعالیٰ سے)! پس اللہ تعالیٰ کی قسم! البتہ تحقیق تم نے دین کو چھوڑا ہے اور بلاشبہ جس کی طرف میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں،یقینا وہ تمہارے لیے زیادہ باعزت اور تمہاری دنیا کے لیے بہت زیادہ ہے۔‘‘] ’’فَأَبٰی،فَاجْتَلَدَا،فَقُتِلَ الرَّجَّالُ۔‘‘[1] [’’(لیکن)اُس نے انکار کیا،دونوں گُتھم گتھا ہوئے اور الرجال قتل کیا گیا/ مارا گیا۔‘‘] اس واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں،کہ حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لڑائی کے آغاز سے پہلے الرجال کو دوبارہ مسلمان ہونے کی دعوت دی۔رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَ أَرْضَاہُ۔ چار دیگر فوائد: ۱۔ میدانِ جنگ میں بھی دعوتِ اسلام دینا ۲۔ کسی پر شدید غصے اور ناراضی کا اسے دعوتِ اسلام دینے میں رکاوٹ نہ ہونا
[1] (اَلرَّجَّال):بن عُنْفُوَۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سورۃ البقرۃ پڑھی۔عہدِ صدیقی میں فتنۂ ارتداد کے موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا۔انہوں نے اہل یمامہ کو دعوتِ دین دینے اور انہیں ثابت قدمی کی تلقین کرنے کی خاطر اُن کی طرف بھیجا۔لیکن وہ مسیلمہ کے ساتھ مل کر مرتد ہو گیا۔اس نے مسلیمہ کی نبوت کی گواہی دی اور معرکۂ یمامہ میں مارا گیا۔لَعَنَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔(ملاحظہ ہو:البدایۃ و النہایۃ ۹/۴۴۶۔[ط۔دار ہجر)۔