کتاب: دعوت دین کون دے؟ - صفحہ 72
طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی اور وہ قرآن کے ساتھ وعظ و نصیحت کرے۔‘‘ [1] ۲۔ حافظ ابن کثیر کا قول: حافظ ابن کثیر نے آیت کریمہ: {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ}[2] کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’اس آیت کا مقصود یہ ہے ، کہ اُمت میں سے ایک گروہ اس کام میں لگا رہے ، اگرچہ اس کا کرنا اُمت کے ہر شخص پر بقدر استطاعت واجب ہے ، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے: ’’مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ، فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ، وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْإِیمَانِ۔‘‘ [3] [تم میں سے جو کوئی بُرائی دیکھے، تو اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر وہ [ایسا کرنے کی ] طاقت نہ رکھے، تو اپنی زبان کے ساتھ، اور اگر اس کی [بھی] استطاعت نہ رکھے ، تو اپنے دل کے ساتھ، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔] [4] ۳۔ شیخ ابن بادیس کا قول: اس سلسلے میں انہوں نے تحریر کیا ہے:’’دعوت الی اللہ کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی
[1] التفسیر القیم ص ۳۱۸۔۳۱۹۔ [2] سورۃ آل عمران؍ الآیۃ ۱۰۴۔ [ترجمہ:اور لازم ہے کہ تم میں سے ایک ایسی جماعت ہو، جو نیکی کی طرف دعوت دیں اور اچھے کام کا حکم دیں اور بُرائی سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔] [3] ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب کون النھي عن المنکر من الإیمان، رقم الحدیث ۷۸، ۱؍۶۹۔ [4] تفسیر ابن کثیر ۱؍۴۱۸۔۴۱۹۔