کتاب: دعوت دین کون دے؟ - صفحہ 29
بھائی سے کہا:
’’اس وادی[یعنی مکہ] کی طرف سوار ہو کر جاؤ اور میرے لیے اس آدمی کے متعلق معلومات جمع کرکے لاؤ ، جنہوں نے یہ دعویٰ کیاہے ، کہ وہ نبی ہیں اور ان کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے۔ ان کی بات کو [توجہ سے] سننا ، پھر میرے پاس آنا۔‘‘
[ان کے ]بھائی روانہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پہنچے ، آپ کی گفتگو کو [توجہ سے] سنا اور پھر ابو ذر کے پاس آکر بیان کیا:’’میں نے انہیں دیکھاہے ، کہ وہ اچھے اخلاق کا حکم دیتے، اور وہ ایسی گفتگو کرتے ہیں ، کہ وہ شعر نہیں ۔‘‘
انہوں [ابو ذر] نے [ جواباً] کہا: ’’میں جو چاہتا تھا، تم اس کے متعلق میری تشفی نہیں کر اسکے۔‘‘
انہوں نے [خود] توشہ باندھا اور پانی کا بھرا ہوا ایک مشکیزہ ہمراہ لیا اور مکہ [مکرمہ] پہنچ گئے۔ مسجد [الحرام] میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے، [لیکن] انہوں نے کسی سے آپ کے بارے میں پوچھنا بھی مناسب نہ سمجھا۔
[اسی طرح] کچھ رات گزر گئی ، تو وہ لیٹ گئے۔ [ اسی حالت میں ] علی رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا ، تو وہ سمجھ گئے، کہ کوئی پردیسی ہے۔
جب ابو ذر نے انہیں دیکھا ، تو وہ ان کے پیچھے پیچھے چل نکلے ، لیکن ان دونوں نے ایک دوسرے سے کسی بھی بارے میں کچھ نہ پوچھا۔
جب صبح ہوئی ، تو ابو ذراپنا مشکیزہ اور زادِ راہ اُٹھائے مسجد [الحرام] میں آگئے۔ یہ دن بھی [ یونہی] گزر گیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے [بھی] انہیں نہ دیکھا۔ شام ہوئی، تو وہ لیٹ گئے۔ علی رضی اللہ عنہ کا [ پھر] وہاں سے گزر ہوا ، تو ان سے پوچھا:’’کیا آدمی کے لیے