کتاب: دعوت دین کون دے؟ - صفحہ 27
[کیا تمہیں معلوم ہے ، کہ یہ کون سا دن ہے؟] یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أَلاَھَلْ بَلَّغْتُ؟‘‘ [کیا میں نے [ پیغام الٰہی ] پہنچا دیا ہے؟ ] انہوں نے عرض کیا: ’’نَعَمْ‘‘ ’’جی ہاں !‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اَللّٰھُمَّ أَشْھَدْ۔ فَلْیُبَلِّغْ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ۔‘‘ [1] [اے اللہ! گواہ ہو جائیے [یہاں ] موجود ہر ایک شخص غیر حاضر کو پہنچا دے۔ کتنے لوگ [ ایسے ہیں ] ، کہ جن تک بات پہنچائی جاتی ہے، [خود] سننے والوں سے زیادہ سمجھنے و الے ہوتے ہیں ۔] حجۃ الوداع میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا۔[2] وہ سارے تو علماء نہ تھے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو بلا تمیز ، دوسرے لوگوں تک سنی ہوئی بات پہنچانے کا حکم دیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے ، کہ اس خطبہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی، جزء من رقم الحدیث ۱۷۴۱، ۳؍۵۷۳۔ ۵۷۴ ؛ وصحیح مسلم، کتاب القسامۃ، باب تغلیظ تحریم الدماء والأعراض والأموال ، رقم الحدیث ۲۹(۱۶۷۹)، ۳؍۱۳۰۵۔۱۳۰۶۔ الفاظ حدیث صحیح البخاری کے ہیں ۔ [2] ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم، رقم الحدیث ۱۴۷ (۱۲۱۸) ، ۲؍۸۸۷۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے: سوار یا پیدل آنے کی استطاعت رکھنے والا ہر شخص حج میں شرکت کی غرض سے پہنچ گیا۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن النسائي ، کتاب مناسک الحج، باب إھلال النفساء ۲؍۵۸۳)۔