کتاب: دعوت دین کون دے؟ - صفحہ 25
کا کرنا ضروری ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول [الصبر] میں سب ممنوعہ باتیں داخل ہیں ، اور مقصودیہ ہے ، کہ وہ نیکی کا حکم دینے والے اور بُرائی سے روکنے والے ہیں ۔ صیغہ ماضی کے استعمال میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ، کہ وہ [یہ چاروں کام: ایمان لانا، نیک اعمال کرنا، حق کی ایک دوسرے کو تلقین کرنا، صبر کی باہم وصیت کرنا] حتمی طور پر کرنے والے ہیں ۔] گفتگو کا ماحاصل یہ ہے ، کہ جو شخص بھی یہ پسند کرے ، کہ وہ خسارے سے بچ جائے اور فلاح کو پالے ، تو اس پر ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے ، کہ وہ نیکی کا حکم دے اور بُرائی سے روکے۔[1] ۴۔ ایک آیت بھی جاننے پر آگے پہنچانے کا حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : دعوتِ دین دینے کی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہونے کے دلائل میں سے ایک یہ ہے ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا حکم دیا ہے ، کہ جس شخص کے پاس ان کی جانب سے ایک آیت بھی پہنچے، وہ اس کو آگے پہنچا دے۔ امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے ، کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بَلِّغُوْا عَنِّيْ وَلَوْ آیَۃً۔‘‘ [2] [اگر میری طرف سے تمہیں ایک آیت بھی پہنچے ، تو اس کو [دوسروں تک] پہنچا دو۔] شرح حدیث میں حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں :
[1] نیز ملاحظہ ہو: الحسبۃ: تعریفھا وشروعیتھا ووجوبھا ص۵۲۔۵۴۔ [2] صحیح البخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب ما ذُکِر عن بني اسرائیل ، جزء من رقم الحدیث ۳۴۶۱، ۶؍۴۹۶۔