کتاب: دعوت دین کون دے؟ - صفحہ 24
ایمان اور اعمالِ صالحہ ہیں اور دوسروں کی تکمیل کی غرض سے ایک دوسرے کو خیر کی باتوں کی تلقین کرنا اور ممنوعہ باتوں سے روکنا ہے۔] انہوں نے مزید تحریر کیا ہے: ’’وَفِيْ لَفْظِ [التَّوَاصِيْ] دُوْنَ الدُّعَائِ وَالنَّصِیْحَۃِ تَأْکِیْدٌ بَلِیْغٌ کَأَنَّہُ مُھْتَمٌّ بِہِ کَالْوَصِیَّۃِ ، وَفِیْہِ أَنَّھُمْ مِنَ الَّذِیْنَ مَاتُوْا بِالْاِرَادَۃِعَنِ الشَّھْوَاتِ الْفَانِیْۃِ ، فَیَکُوْنُ أَمْرُھُمْ وَنَصِیْحَتُھُمْ بِمَنْزِلَۃِ قَوْلِ مَنْ أَشْرَفَ عَلَی اَلْمَوْتِ۔ وَالْحَقُّ خِلَافُ الْبَاطِلِ ، وَیَشْتَمِلُ عَلَی جَمِیْعِ الْخَیْرَاتِ وَمَا یَحِقُّ فِعْلُہُ۔وَقَوْلُہُ وَ (الصَّبْر) یَشْتَمِلُ عَلَی جَمِیْعِ الْمَنَاھِيْ فَھُمْ بِالْحَقِیْقَۃِ آمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ وَفِيْ لَفظِ الْمَضِیِّ إِشَارَۃٌ إِلیٰ تَحْقِیْقِ وَقُوعِہِ مِنْھُمْ۔ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ۔‘‘ [1] [(الدعاء) اور (النصیحۃ) کی بجائے لفظ (التواصي) اختیار کرنے میں اس بات کی شدید تاکید ہے ، کہ وہ ایک دوسرے کو خیر کی تلقین کرنے اور ممنوعہ باتوں سے روکنے کا ایسے ہی اہتمام کرتے ہیں ، جیسا اہتمام وصیت کے لیے کیا جاتاہے ، اور اس میں یہ بات بھی ہے ، کہ وہ فانی شہوتوں کو قصداً ختم کر کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں ، کہ وہ بھلائی کا حکم اور خیر کی نصیحت ایسے شخص کی طرح کرتے ہیں ، جو موت کے کنارے پر پہنچ چکا ہو، [الحق] باطل کی ضد ہے اور اس میں وہ سب باتیں اورکام شامل ہیں ، جن
[1] تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان ۳۰؍ ۱۶۰۔۱۶۱۔